ETV Bharat / state

قلعہ گولکنڈہ: فتح دروازہ پر تزئین کا کام جاری - حیدرآبادہ تازہ ترین خبریں

جنوبی بھارت کے تاریخی شہر حیدرآباد کی تعمیر سے پہلے قلعہ گولکنڈہ ایک شہر تھا۔قلعہ گولکنڈہ سے سلطنت قطب شاہی بادشاہوں نے حکمرانی کی اور کئی تاریخی عمارتوں کو تعمیر کرایا۔ جس میں قلعہ گولکنڈہ کے دروازے اور فصیل وخندق شامل ہیں۔

فتح دروازہ تزئین کا کام جاری
author img

By

Published : Sep 24, 2019, 2:35 PM IST

Updated : Oct 1, 2019, 7:50 PM IST

قلعہ گولکنڈہ کے اطراف سات دروازے ہیں اور ایک بلند دیوار ہے، جسے فصیل کہتے ہیں۔

چوتھے بادشاہ ابراہیم قلی قطب شاہ نے 1554ء میں دروازے، فصیل اور خندق کوتعمیر کرایا۔ان دروازوں کی فصیل اور خندق کی حالت انتہائی خستہ ہو چکی ہے، ان دروازوں پر جھاڑیاں قائم ہوچکی ہیں، دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے لوگ خندق میں گندگی ڈال رہے ہیں۔ساتوں دروازوں کے نام بنجاری دروازہ، جمالی دروازہ، موتی دروازہ، فتح دروازہ، بودلی دروازہ، مکی دروازہ اور پٹنچیرو دروازے ہیں۔ان دروازوں میں فتح دروازہ ہے، جس کی صفائی اس کی خوبصورتی کو بحال کرنے کے لیے حیدرآباد ہیریٹیج ٹرسٹ کی جانب سے کام کرایا جارہاہے۔اس کام میں پچاس مزدور، ایک جے سی بی اور ہیریٹیج ٹرسٹ کے اراکین مصروف ہیں۔فتح دروازہ 60 فٹ بلندہے، اس دروازہ کے اوپری حصے میں آٹھ توپیں ،اسلحہ خانہ، سپاہیوں کے رہنے کے لیے کمرے آج بھی موجود ہیں۔

فتح دروازہ تزئین کا کام جاری، دیکھیں ویڈیو

1689 میں قطب شاہی سلطنت کے آخری بادشاہ ابوالحسن اور مغلیہ سلطنت کے بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے ساتھ جنگ ہوئی تھی، جنگ کے دوران فتح دروازہ کے اوپر رکھی توپوں سے حملہ کیا گیا، جس میں مغلیہ فوج کے ہزاروں سپاہیوں کی موت ہوئی۔
تاریخی کے مطابق اورنگزیب کی فوج میں دو بزرگ تھے، حضرت یوسف الدینؒ، حضرت شریف الدینؒ ان دونوں کی دعاؤں سے اورنگزیب کو قلعہ گولکنڈہ پر فتح حاصل ہوئی۔ آٹھ ماہ کی جدوجہد کے بعد اسی فتح دروازہ سے اورنگزیب عالمگیر نے گولکنڈہ قلعہ پر اپنا پرچم لہرایا۔

عالمگیر نے قطب شاہی سلطنت کے زوال کے بعد آخری بادشاہ ابوالحسن کو قیدی بناکر دہلی روانہ ہوگئے۔ دونوں بادشاہوں کی آخری آرام گاہ اورنگ آباد کے قریب ہے۔ اس تاریخی ورثہ قلعہ گولکنڈہ کی فصیل دروازہ اور خندق آج خستہ حالی کا شکار ہے جس پر خصوصی توجہ دے کر صفائی اور تعمیری مرمت کرنے کی ضرورت ہے۔

قلعہ گولکنڈہ کے اطراف سات دروازے ہیں اور ایک بلند دیوار ہے، جسے فصیل کہتے ہیں۔

چوتھے بادشاہ ابراہیم قلی قطب شاہ نے 1554ء میں دروازے، فصیل اور خندق کوتعمیر کرایا۔ان دروازوں کی فصیل اور خندق کی حالت انتہائی خستہ ہو چکی ہے، ان دروازوں پر جھاڑیاں قائم ہوچکی ہیں، دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے لوگ خندق میں گندگی ڈال رہے ہیں۔ساتوں دروازوں کے نام بنجاری دروازہ، جمالی دروازہ، موتی دروازہ، فتح دروازہ، بودلی دروازہ، مکی دروازہ اور پٹنچیرو دروازے ہیں۔ان دروازوں میں فتح دروازہ ہے، جس کی صفائی اس کی خوبصورتی کو بحال کرنے کے لیے حیدرآباد ہیریٹیج ٹرسٹ کی جانب سے کام کرایا جارہاہے۔اس کام میں پچاس مزدور، ایک جے سی بی اور ہیریٹیج ٹرسٹ کے اراکین مصروف ہیں۔فتح دروازہ 60 فٹ بلندہے، اس دروازہ کے اوپری حصے میں آٹھ توپیں ،اسلحہ خانہ، سپاہیوں کے رہنے کے لیے کمرے آج بھی موجود ہیں۔

فتح دروازہ تزئین کا کام جاری، دیکھیں ویڈیو

1689 میں قطب شاہی سلطنت کے آخری بادشاہ ابوالحسن اور مغلیہ سلطنت کے بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے ساتھ جنگ ہوئی تھی، جنگ کے دوران فتح دروازہ کے اوپر رکھی توپوں سے حملہ کیا گیا، جس میں مغلیہ فوج کے ہزاروں سپاہیوں کی موت ہوئی۔
تاریخی کے مطابق اورنگزیب کی فوج میں دو بزرگ تھے، حضرت یوسف الدینؒ، حضرت شریف الدینؒ ان دونوں کی دعاؤں سے اورنگزیب کو قلعہ گولکنڈہ پر فتح حاصل ہوئی۔ آٹھ ماہ کی جدوجہد کے بعد اسی فتح دروازہ سے اورنگزیب عالمگیر نے گولکنڈہ قلعہ پر اپنا پرچم لہرایا۔

عالمگیر نے قطب شاہی سلطنت کے زوال کے بعد آخری بادشاہ ابوالحسن کو قیدی بناکر دہلی روانہ ہوگئے۔ دونوں بادشاہوں کی آخری آرام گاہ اورنگ آباد کے قریب ہے۔ اس تاریخی ورثہ قلعہ گولکنڈہ کی فصیل دروازہ اور خندق آج خستہ حالی کا شکار ہے جس پر خصوصی توجہ دے کر صفائی اور تعمیری مرمت کرنے کی ضرورت ہے۔

Intro:فتح دروازہ سے ہی عالمگیر کو فتح حاصل ہوئی جنوبی بھارت کے تاریخی شہر حیدرآباد کی تعمیر سے پہلے قلعہ گولکنڈہ شہر تھا- قلعہ گولکنڈہ سے سلطنت قطب شاہی بادشاہوں نے حکمرانی کی اور کئی تاریخی عمارتوں کو تعمیر کروایا جس میں قلعہ گولکنڈہ کے دروازے اور فصیل شامل ہیں قلعہ گولکنڈہ کے اطراف 7 دروازہ ہے اور ایک بلند دیوار ہے جسے فصیل کہتے ہیں چوتھے بادشاہ ابراھیم قلی قطب شاہ نے 1554ء میں دروازے اور فصیل اور خندق تعمیر کی قلعہ گولکنڈہ میں ان دروازوں سے ہی داخل ہوتے ہیں اور اس دروازے سے لگی ہوئی فصیل ہیں اس کے قریب پانی کا خندق جو کافی گہرا ہے جس میں مختلف پانی کے جانوروں رہا کرتے تھے- دشمن کو روکنے کے لیے تعمیر کی گئی تھی - آج وہ دروازوں فصیل اور خندق کی حالت خستہ ہو چکی ہے ان دروازوں پر جھاڑیاں اٹھ چکی ہے اور خندق میں گندگی ڈالی جارہی ہے- قلعہ گولکنڈہ کے سات دروازےہے جن کے نام بنجاری دروازہ جمالی دروازہ موتی دروازہ فتح دروازہ بودلی دروازہ مکی دروازہ پٹنچیرو دروازہ ہیں - ان دروازوں میں فتح دروازہ ہے جس کی صفائی اس کی خوبصورتی کو بحال کرنے کیلئے حیدرآباد ہیریٹیج ٹرسٹ کی جانب سے صفائی کا کام کیا جا رہا ہے- یہ دو روزہ ڈرایف میں پچاس مزدور ایک جے سی پی اور ان کے اراکین کر رہے ہیں - فتح دروازہ 60فٹ بلند ہے اس دروازہ کے اوپر حصہ میں 8 توپیں موجود ہیں اور اسلحہ خانہ سپاہیوں کو رہنے کے لیے کمرے بھی موجود ہے-1689 میں قطب شاہی سلطنت کے آخری بادشاہ ابوالحسن تانا شاہ اور مغلیہ سلطنت کے بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی جنگ ہوئی 8ماہ تک یہ جنگ جاری رہی فتح دروازہ کے اوپر رکھی توپیوں سے حملہ کیا گیا جس میں مغلیہ فوج کے ہزاروں سپاہیوں کی موت ہوئی - تاریخی کے مطابق اورنگزیب کی فوج میں دو بزرگ حضرات تھے حضرت یوسف الدین رحمتہ اللہ علیہ حضرت شریف الدین رحمۃ اللہ علیہ ان دونوں کی دعاؤں سے اورنگزیب کو قلعہ گولکنڈہ پر فتح حاصل ہوئی 8ماہ کی جدوجہد کے بعد اسی فتح دروازہ سے اورنگزیب عالمگیر نے گولکنڈہ قلعہ اپنا پرچم لہرا عالمگیر نے قطب شاہی سلطنت کے زوال کے بعد آخر بادشاہ ابوالحسن تانا شاہ کو باندی بناکر دہلی روانہ ہوگئے - دونوں بادشاہوں آخری آرام گاہ اورنگ آباد میں قریب قریب ہے- اس تاریخی ورثہ قلعہ گولکنڈہ کی فصیل دروازہ اور خندق کی خستہ حالت ہے اس پر خصوصی توجہ دے کر صفائی اور تعمیر مرمت کرنے کی ضرورت ہے بائٹ کارکن (حیدرآباد ہیریٹیج ٹر سٹ) بائٹ ڈاکٹر محمد صفی اللہ ( ماہر آثار قدیمہ وتاریخ داں)


Body: فتح دروازہ سے ہی عالمگیر کو فتح حاصل ہوئی جنوبی بھارت کے تاریخی شہر حیدرآباد کی تعمیر سے پہلے قلعہ گولکنڈہ شہر تھا- قلعہ گولکنڈہ سے سلطنت قطب شاہی بادشاہوں نے حکمرانی کی اور کئی تاریخی عمارتوں کو تعمیر کروایا جس میں قلعہ گولکنڈہ کے دروازے اور فصیل شامل ہیں قلعہ گولکنڈہ کے اطراف 7 دروازہ ہے اور ایک بلند دیوار ہے جسے فصیل کہتے ہیں چوتھے بادشاہ ابراھیم قلی قطب شاہ نے 1554ء میں دروازے اور فصیل اور خندق تعمیر کی قلعہ گولکنڈہ میں ان دروازوں سے ہی داخل ہوتے ہیں اور اس دروازے سے لگی ہوئی فصیل ہیں اس کے قریب پانی کا خندق جو کافی گہرا ہے جس میں مختلف پانی کے جانوروں رہا کرتے تھے- دشمن کو روکنے کے لیے تعمیر کی گئی تھی - آج وہ دروازوں فصیل اور خندق کی حالت خستہ ہو چکی ہے ان دروازوں پر جھاڑیاں اٹھ چکی ہے اور خندق میں گندگی ڈالی جارہی ہے- قلعہ گولکنڈہ کے سات دروازےہے جن کے نام بنجاری دروازہ جمالی دروازہ موتی دروازہ فتح دروازہ بودلی دروازہ مکی دروازہ پٹنچیرو دروازہ ہیں - ان دروازوں میں فتح دروازہ ہے جس کی صفائی اس کی خوبصورتی کو بحال کرنے کیلئے حیدرآباد ہیریٹیج ٹرسٹ کی جانب سے صفائی کا کام کیا جا رہا ہے- یہ دو روزہ ڈرایف میں پچاس مزدور ایک جے سی پی اور ان کے اراکین کر رہے ہیں - فتح دروازہ 60فٹ بلند ہے اس دروازہ کے اوپر حصہ میں 8 توپیں موجود ہیں اور اسلحہ خانہ سپاہیوں کو رہنے کے لیے کمرے بھی موجود ہے-1689 میں قطب شاہی سلطنت کے آخری بادشاہ ابوالحسن تانا شاہ اور مغلیہ سلطنت کے بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی جنگ ہوئی 8ماہ تک یہ جنگ جاری رہی فتح دروازہ کے اوپر رکھی توپیوں سے حملہ کیا گیا جس میں مغلیہ فوج کے ہزاروں سپاہیوں کی موت ہوئی - تاریخی کے مطابق اورنگزیب کی فوج میں دو بزرگ حضرات تھے حضرت یوسف الدین رحمتہ اللہ علیہ حضرت شریف الدین رحمۃ اللہ علیہ ان دونوں کی دعاؤں سے اورنگزیب کو قلعہ گولکنڈہ پر فتح حاصل ہوئی 8ماہ کی جدوجہد کے بعد اسی فتح دروازہ سے اورنگزیب عالمگیر نے گولکنڈہ قلعہ اپنا پرچم لہرا عالمگیر نے قطب شاہی سلطنت کے زوال کے بعد آخر بادشاہ ابوالحسن تانا شاہ کو باندی بناکر دہلی روانہ ہوگئے - دونوں بادشاہوں آخری آرام گاہ اورنگ آباد میں قریب قریب ہے- اس تاریخی ورثہ قلعہ گولکنڈہ کی فصیل دروازہ اور خندق کی خستہ حالت ہے اس پر خصوصی توجہ دے کر صفائی اور تعمیر مرمت کرنے کی ضرورت ہے بائٹ کارکن (حیدرآباد ہیریٹیج ٹر سٹ) بائٹ ڈاکٹر محمد صفی اللہ ( ماہر آثار قدیمہ وتاریخ داں)


Conclusion:
Last Updated : Oct 1, 2019, 7:50 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.