قلعہ گولکنڈہ کے اطراف سات دروازے ہیں اور ایک بلند دیوار ہے، جسے فصیل کہتے ہیں۔
چوتھے بادشاہ ابراہیم قلی قطب شاہ نے 1554ء میں دروازے، فصیل اور خندق کوتعمیر کرایا۔ان دروازوں کی فصیل اور خندق کی حالت انتہائی خستہ ہو چکی ہے، ان دروازوں پر جھاڑیاں قائم ہوچکی ہیں، دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے لوگ خندق میں گندگی ڈال رہے ہیں۔ساتوں دروازوں کے نام بنجاری دروازہ، جمالی دروازہ، موتی دروازہ، فتح دروازہ، بودلی دروازہ، مکی دروازہ اور پٹنچیرو دروازے ہیں۔ان دروازوں میں فتح دروازہ ہے، جس کی صفائی اس کی خوبصورتی کو بحال کرنے کے لیے حیدرآباد ہیریٹیج ٹرسٹ کی جانب سے کام کرایا جارہاہے۔اس کام میں پچاس مزدور، ایک جے سی بی اور ہیریٹیج ٹرسٹ کے اراکین مصروف ہیں۔فتح دروازہ 60 فٹ بلندہے، اس دروازہ کے اوپری حصے میں آٹھ توپیں ،اسلحہ خانہ، سپاہیوں کے رہنے کے لیے کمرے آج بھی موجود ہیں۔
1689 میں قطب شاہی سلطنت کے آخری بادشاہ ابوالحسن اور مغلیہ سلطنت کے بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے ساتھ جنگ ہوئی تھی، جنگ کے دوران فتح دروازہ کے اوپر رکھی توپوں سے حملہ کیا گیا، جس میں مغلیہ فوج کے ہزاروں سپاہیوں کی موت ہوئی۔
تاریخی کے مطابق اورنگزیب کی فوج میں دو بزرگ تھے، حضرت یوسف الدینؒ، حضرت شریف الدینؒ ان دونوں کی دعاؤں سے اورنگزیب کو قلعہ گولکنڈہ پر فتح حاصل ہوئی۔ آٹھ ماہ کی جدوجہد کے بعد اسی فتح دروازہ سے اورنگزیب عالمگیر نے گولکنڈہ قلعہ پر اپنا پرچم لہرایا۔
عالمگیر نے قطب شاہی سلطنت کے زوال کے بعد آخری بادشاہ ابوالحسن کو قیدی بناکر دہلی روانہ ہوگئے۔ دونوں بادشاہوں کی آخری آرام گاہ اورنگ آباد کے قریب ہے۔ اس تاریخی ورثہ قلعہ گولکنڈہ کی فصیل دروازہ اور خندق آج خستہ حالی کا شکار ہے جس پر خصوصی توجہ دے کر صفائی اور تعمیری مرمت کرنے کی ضرورت ہے۔