ETV Bharat / state

”ڈپٹی نذیر احمداساتذہ کے لیے ایک مثالی شخصیت تھے“ - اسلم فرشوری

'جب مولوی صاحب کا حلیہ بیان کرتے ہیں تو ان کی شخصیت بھونڈی نظر آتی ہے۔ لیکن جب ان کے کمالات کا ذکر کرتے ہیں تو ان کے علم و فضل کے سامنے شخصیت کا بھونڈاپن دب جاتا ہے۔'

”ڈپٹی نذیر احمداساتذہ کے لیے ایک مثالی شخصیت تھے“
”ڈپٹی نذیر احمداساتذہ کے لیے ایک مثالی شخصیت تھے“
author img

By

Published : Sep 6, 2020, 4:29 PM IST

ممتاز فکشن نگار پروفیسر غضنفرنے ”بازگشت“ آن لائن ادبی فورم کی جانب سے مرزا فرحت اللہ بیگ کے مشہور خاکے ”ڈاکٹر نذیر احمد کی کہانی۔کچھ میری، کچھ ان کی زبانی“ کے منتخب حصوں کی پیش کش اور تجزیے پر مبنی گوگل میٹ پر منعقدہ پروگرام میں بہ طور مہمان خصوصی خطاب کیا۔

انھوں نے کہا”ڈپٹی نذیر احمد اساتذہ کے لیے ایک مثالی شخصیت تھے۔ ان کی پوری زندگی شاگردوں اور علمی کاموں کے لیے وقف تھی۔میں ”بازگشت“کے ذمہ داران کویوم ِاساتذہ کے موقعے پرمولوی نذیر احمد کے خاکے کی پیش کش پر مبارکباد دیتا ہوں۔ یہ ایک استاد کی زندگی پر لکھا گیابہترین خاکہ ہے۔ استاد شاگرد کا رشتہ، علم کا شوق، پڑھانے کا چسکہ اور پڑھنے کا شوق، ان تمام باتوں سے اس مضمون میں بہترین انداز میں واقف کرایا گیا ہے۔“۔انھوں نے مزید کہا کہ”خاکہ میں کسی شخص کے سیاہ اور سفید دونوں رنگوں کو دلآویز انداز میں پیش کیا جاتاہے۔ مرزا فرحت نے اس میں مولوی نذیر احمد کی شخصیت کے تمام گوشے منور کردیے ہیں۔وہ جب مولوی صاحب کا حلیہ بیان کرتے ہیں تو ان کی شخصیت بھونڈی نظر آتی ہے لیکن جب ان کے کمالات کا ذکر کرتے ہیں تو ان کے علم و فضل کے سامنے شخصیت کا بھونڈاپن دب جاتا ہے۔وہ اپنے آرام کا وقت بھی طلبا کو پڑھانے میں صرف کرتے تھے۔“ انھوں نے ڈپٹی نذیر احمد کی شخصیت کی نمایاں خصوصیات اور بشری کمزوریوں پر تفصیلی روشنی ڈالی اور مرزا فرحت اللہ بیگ کی خاکہ نگاری پر سیر حاصل گفتگو کی۔

معروف فکشن نگاراور ”بازگشت“ کے سرپرست پروفیسر بیگ احساس نے صدارتی خطبے میں کہا کہ استاد اور شاگرد کے خوش گوار رشتے کا جو سلسلہ مولوی نذیر احمد اور مرزا فرحت اللہ بیگ سے شروع ہوا تھا وہ اب تک قائم ہے۔ مرزا فرحت کا تحریر کردہ یہ اردو کا واحد خاکہ ہے جو دو اسلوب میں لکھا گیا۔ یہ فلمی تکنیک پر لکھا گیا محسوس ہوتا ہے۔انھوں نے کیمرے کی آنکھ سے مولوی صاحب کا حلیہ، ان کے گھر کے ایک ایک کونے کی تفصیل پیش کی ہے۔ساتھ ہی یہ بھی بتایا ہے کہ جس گھر میں عورت نہیں ہوتی وہ سلیقے سے عاری ہوتا ہے۔ مرزا نے ایک جملے میں نذیر احمد کے لباس اور گھر کی بے ترتیبی کی وجہ بیان کردی۔ انھوں نے اپنے استاد کو خراج عقیدت بھی پیش کیا اور بہت فنکاری کے ساتھ ان کی شخصی خامیوں کو بھی پیش کر دیا۔یہ آج بھی اردو کا بہترین خاکہ تسلیم کیا جاتا ہے۔

انھوں نے اپنے شاگردوں کو اشعار پڑھنا سکھایا، ان میں ادبی ذوق پیدا کیا، ان کی تربیت کی، آہستہ آہستہ انھیں ترجمہ کی طرف مائل کیا۔خود انھوں نے اپنی شخصیت کی تعمیر بڑی محنت سے کی تھی۔وہ پوری طرح ایک سیلف میڈ انسان تھے۔انہوں نے کہاکہ یہ عجیب اتفاق ہے کہ مجتبی حسین صاحب گلبرگہ سے حیدرآباد آئے اور پھر حیدرآباد سے دہلی گئے اور مرزا فرحت اللہ بیگ دہلی سے حیدرآباد آئے اور حیدرآباد سے گلبرگہ گئے اور دونوں چوٹی کے مزاح نگار ہیں۔اس سے قبل ای ٹی وی اردو کے چیف پروڈیوسر اور آل انڈیا ریڈیو، حیدرآبادجناب اسلم فرشوری نے یہ خاکہ نہایت دل پذیر انداز میں پیش کیا۔پروفیسر غضنفر نے اسلم فرشوری صاحب کے انداز پیش کش کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اتنے طویل خاکے کو بغیر تھکے ہوئے اور بے حد دلکش انداز میں پیش کیا۔ ڈاکٹر احمد خاں، استادمرکز مطالعات اردو ثقافت، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآبادنے بھی جلسے میں اظہارِ خیال کیا۔ ڈاکٹر فیروز عالم رکن انتظامیہ کمیٹی نے انتظامات کی ذمہ داری سنبھالی اور مرزا فرحت اللہ بیگ کا تعارف پیش کیا جبکہ دوسری رکن ڈاکٹرگلِ رعنا نے پروفیسر غضنفر اور جناب اسلم فرشوری کا تعارف کرایا اورجلسے کی نظامت کی۔مجلسِ منتظمہ کی ایک اور رکن ڈاکٹرحمیرہ سعید نے پروگرام کے آخر میں اظہارِ تشکر کیا۔اس اجلاس میں ملک و بیرونِ ملک کے شائقین ادب اور طلبا و طالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

ہرہفتے شنبہ کی رات آٹھ بجے آن لائن ادبی فورم ”بازگشت“کی جانب سے ادبی پروگرام پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے سرپرست پروفیسر بیگ احساس اور کنوینرز ڈاکٹر فیروز عالم (استاد شعبہ اردو، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد)، ڈاکٹر گل رعنا (استاد شعبہ اردو، تلنگانہ یونیورسٹی، نظام آباد) اور ڈاکٹر حمیرہ سعید (پرنسپل، گورنمنٹ ڈگری کالج فار ویمن، سنگاریڈی) ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:حیدرآباد میٹرو ریل کا کل سے آغاز

ممتاز فکشن نگار پروفیسر غضنفرنے ”بازگشت“ آن لائن ادبی فورم کی جانب سے مرزا فرحت اللہ بیگ کے مشہور خاکے ”ڈاکٹر نذیر احمد کی کہانی۔کچھ میری، کچھ ان کی زبانی“ کے منتخب حصوں کی پیش کش اور تجزیے پر مبنی گوگل میٹ پر منعقدہ پروگرام میں بہ طور مہمان خصوصی خطاب کیا۔

انھوں نے کہا”ڈپٹی نذیر احمد اساتذہ کے لیے ایک مثالی شخصیت تھے۔ ان کی پوری زندگی شاگردوں اور علمی کاموں کے لیے وقف تھی۔میں ”بازگشت“کے ذمہ داران کویوم ِاساتذہ کے موقعے پرمولوی نذیر احمد کے خاکے کی پیش کش پر مبارکباد دیتا ہوں۔ یہ ایک استاد کی زندگی پر لکھا گیابہترین خاکہ ہے۔ استاد شاگرد کا رشتہ، علم کا شوق، پڑھانے کا چسکہ اور پڑھنے کا شوق، ان تمام باتوں سے اس مضمون میں بہترین انداز میں واقف کرایا گیا ہے۔“۔انھوں نے مزید کہا کہ”خاکہ میں کسی شخص کے سیاہ اور سفید دونوں رنگوں کو دلآویز انداز میں پیش کیا جاتاہے۔ مرزا فرحت نے اس میں مولوی نذیر احمد کی شخصیت کے تمام گوشے منور کردیے ہیں۔وہ جب مولوی صاحب کا حلیہ بیان کرتے ہیں تو ان کی شخصیت بھونڈی نظر آتی ہے لیکن جب ان کے کمالات کا ذکر کرتے ہیں تو ان کے علم و فضل کے سامنے شخصیت کا بھونڈاپن دب جاتا ہے۔وہ اپنے آرام کا وقت بھی طلبا کو پڑھانے میں صرف کرتے تھے۔“ انھوں نے ڈپٹی نذیر احمد کی شخصیت کی نمایاں خصوصیات اور بشری کمزوریوں پر تفصیلی روشنی ڈالی اور مرزا فرحت اللہ بیگ کی خاکہ نگاری پر سیر حاصل گفتگو کی۔

معروف فکشن نگاراور ”بازگشت“ کے سرپرست پروفیسر بیگ احساس نے صدارتی خطبے میں کہا کہ استاد اور شاگرد کے خوش گوار رشتے کا جو سلسلہ مولوی نذیر احمد اور مرزا فرحت اللہ بیگ سے شروع ہوا تھا وہ اب تک قائم ہے۔ مرزا فرحت کا تحریر کردہ یہ اردو کا واحد خاکہ ہے جو دو اسلوب میں لکھا گیا۔ یہ فلمی تکنیک پر لکھا گیا محسوس ہوتا ہے۔انھوں نے کیمرے کی آنکھ سے مولوی صاحب کا حلیہ، ان کے گھر کے ایک ایک کونے کی تفصیل پیش کی ہے۔ساتھ ہی یہ بھی بتایا ہے کہ جس گھر میں عورت نہیں ہوتی وہ سلیقے سے عاری ہوتا ہے۔ مرزا نے ایک جملے میں نذیر احمد کے لباس اور گھر کی بے ترتیبی کی وجہ بیان کردی۔ انھوں نے اپنے استاد کو خراج عقیدت بھی پیش کیا اور بہت فنکاری کے ساتھ ان کی شخصی خامیوں کو بھی پیش کر دیا۔یہ آج بھی اردو کا بہترین خاکہ تسلیم کیا جاتا ہے۔

انھوں نے اپنے شاگردوں کو اشعار پڑھنا سکھایا، ان میں ادبی ذوق پیدا کیا، ان کی تربیت کی، آہستہ آہستہ انھیں ترجمہ کی طرف مائل کیا۔خود انھوں نے اپنی شخصیت کی تعمیر بڑی محنت سے کی تھی۔وہ پوری طرح ایک سیلف میڈ انسان تھے۔انہوں نے کہاکہ یہ عجیب اتفاق ہے کہ مجتبی حسین صاحب گلبرگہ سے حیدرآباد آئے اور پھر حیدرآباد سے دہلی گئے اور مرزا فرحت اللہ بیگ دہلی سے حیدرآباد آئے اور حیدرآباد سے گلبرگہ گئے اور دونوں چوٹی کے مزاح نگار ہیں۔اس سے قبل ای ٹی وی اردو کے چیف پروڈیوسر اور آل انڈیا ریڈیو، حیدرآبادجناب اسلم فرشوری نے یہ خاکہ نہایت دل پذیر انداز میں پیش کیا۔پروفیسر غضنفر نے اسلم فرشوری صاحب کے انداز پیش کش کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اتنے طویل خاکے کو بغیر تھکے ہوئے اور بے حد دلکش انداز میں پیش کیا۔ ڈاکٹر احمد خاں، استادمرکز مطالعات اردو ثقافت، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآبادنے بھی جلسے میں اظہارِ خیال کیا۔ ڈاکٹر فیروز عالم رکن انتظامیہ کمیٹی نے انتظامات کی ذمہ داری سنبھالی اور مرزا فرحت اللہ بیگ کا تعارف پیش کیا جبکہ دوسری رکن ڈاکٹرگلِ رعنا نے پروفیسر غضنفر اور جناب اسلم فرشوری کا تعارف کرایا اورجلسے کی نظامت کی۔مجلسِ منتظمہ کی ایک اور رکن ڈاکٹرحمیرہ سعید نے پروگرام کے آخر میں اظہارِ تشکر کیا۔اس اجلاس میں ملک و بیرونِ ملک کے شائقین ادب اور طلبا و طالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

ہرہفتے شنبہ کی رات آٹھ بجے آن لائن ادبی فورم ”بازگشت“کی جانب سے ادبی پروگرام پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے سرپرست پروفیسر بیگ احساس اور کنوینرز ڈاکٹر فیروز عالم (استاد شعبہ اردو، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد)، ڈاکٹر گل رعنا (استاد شعبہ اردو، تلنگانہ یونیورسٹی، نظام آباد) اور ڈاکٹر حمیرہ سعید (پرنسپل، گورنمنٹ ڈگری کالج فار ویمن، سنگاریڈی) ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:حیدرآباد میٹرو ریل کا کل سے آغاز

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.