مسئلہ کشمیر پر فیصلہ آنے کے بعد مختلف سیاسی پارٹیوں کا ملا جلا رد عمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ تمل ناڈو کی ڈی ایم کے اور سی پی آئی نے بھی کشمیر فیصلے کی تنقید کین ہے۔
'ڈی ایم کے' کے صدر ایم کے اسٹالن نے یہاں پیر کو صحافیوں سے کہا کہ جموں و کشمیر کو تقسیم کرکے دو نئی ریاست مرکز کے زیر انتظام کرنے کا حکومت کا یہ فیصلہ 'جمہوریت کا قتل' ہے۔ انہوں نے کہا کہ 'مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کے عوام کی منظوری کے بغیر 370 کو ختم کرکے جمہوریت کا قتل کیا ہے۔
مسٹر اسٹالن نے اس فیصلے کو جمہوریت مخالف قرار دیتےہوئے اس کی تنقید کی۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں اس کی حمایت کرنے کے لیے 'اے آئی ڈی ایم کے' کی بھی تنقید کی۔ انہوں نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ 'اے آئی ڈی ایم کے' کے لیےیہی مناسب ہوگا کہ وہ اپنا نام بدل کر بھارتیہ جنتا پارٹی رکھ لے۔
ڈی ایم کے کے صدر نے کہا کہ جموں و کشمیر کے عوام کے ذریعے ایک منتخب حکومت کی تشکیل ہو جانے تک ریاست کو تقسیم کرکے مرکزکے زیر انتظام دو نئی ریاست بنائے جانے کے فیصلے کو روکا جانا چاہیے تھا۔
انہوں نے اس سے قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ منتخب وزیر اعلیٰ کا مقابلہ گورنر سے نہیں کا جاسکتا۔
مسٹر اسٹالن نے جموں وکشمیر میں اہم رہنماؤں کو نظر بند کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھی خفیہ طور پر کیا گیا جو سہی نہیں ہے۔
اس درمیان سی پی آئی کے ریاستی سکریٹری موتھارسن نے مرکزی حکومت کے اس فیصلے کی تنقید کرتے ہوئے اسے قومی اتحاد کی بے حرمتی قرار دیا اور جموں و کشمیر میں موجودہ تنازع کم کرنے کے لیے سیاسی حل نہ نکالنے کا حکومت پر الزام عائد کیا۔
منیٹھانیہ مکَّل کچی کے رہنما ایم ایچ جواہراللہ نے مرکزی حکومت کے اس فیصلے کو ہندوستانی جمہوریت میں سیاہ دن قرار دیتے ہوئے کہا کہ جموں وکشمیر کو منقسم کرنے کے فیصلے سے ملک میں غیر معلنہ ایمرجنسی کی صورتحال ہو گئی ہے۔
غورطلب ہے کہ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے پیر کو اپوزیشن کے ہنگامے کے درمیان دفعہ 370 ختم کرنے کی تجویز راجیہ سبھا میں پیش کی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام ریاست کا درجہ دینے اور لداخ کو علاحدہ کرکے مرکز کے زیر انتظام ریاست بنانے سے متعلق بل بھی پیش کیا جسے صدر جمہوریہ کی دستخط کے بعد منظور کر لیا گیا۔