یوں تو شہر سرینگر میں ملبوسات کی کئی دکانیں موجود ہیں لیکن خالص وول، منفرد ڈیزائنرز اور فنشنگ کے اعتبار سے گورنمنٹ بمنہ وولن مل کا یہ شوروم کافی مشہور ہے۔ اس شوروم میں دستیاب تمام مصنوعات جموں و کشمیر انڈسڑیز کے تحت بمنہ میں قائم اس وولن مل سے بن کے آتی ہیں۔ جہاں بیرونی ممالک سے منگوائے جانے والے 22 میکرون کے اون کو مختلف مراحل سے گزار کر دھاگے کی شکل دی جاتی ہے۔ وہیں پھر اس دھاگے کو الگ الگ مشینز میں گزار کر کپڑے کی شکل دی جاتی ہے۔
درآمد کئے جانے والے اون کے علاوہ اس کارخانے میں مقامی طور بھیڑوں سے نکلنے والے اون کو بھی بڑی محنت کے ساتھ ابتدائی طور صفائی، ڈائی اور دیگر مراحل کے بعد کپڑے کی صورت میں تبدیل کیا جاتا ہے۔
اگرچہ سنہ 2014 کے سیلاب میں اس مل میں موجود مشینری کو کافی نقصان پہنچا تھا لیکن حکومتی تعاون اور یہاں کام کررہے ملازمین کی انتھک کوششوں سے اس وولن مل میں گزشتہ چند برسوں سے اب بہتر طور کام انجام دیا جارہاہے۔
وہیں حال ہی میں ورلڈ بینک کے مالی تعاون سے اس میں نئی روح پھونکی جارہی ہے۔ یہاں اس وقت سو سے زائد ملازم کام کررہے ہیں۔
گورنمنٹ وولن مل بمنہ کے منیجر خورشید سلطان کہتے ہیں کہ مل میں جو بھی کپڑا بنایا جاتا ہے، وہ اعلی معیار کا ہوتا ہے۔ جس کی وجہ اس کپڑے سے بنائے گئے مصنوعات کو نہ صرف مقامی بلکہ بیرونی سطح پر بھی کافی پسند کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
سیاسی رہنماؤں نے پولیس اہلکاروں پر حملے کو بزدلانہ قرار دیا
شہر سرینگر میں بمنہ وولن مل کے دو بڑے شوروم موجود ہیں جن میں الگ الگ اور خوبصورت ڈیزائنز میں تیار کردہ یہ گرم ملبوسات براہ راست کارخانے سے بن کے آتے ہیں۔
وہیں یہ شوروم آج کل کوٹ، جیکٹ اور ویسٹ کوٹ خریدنے کے لئے نہ صرف مقامی لوگوں بلکہ سیاحوں کے لئے بھی پہلی پسند بنا ہوا ہے۔
شوروم میں کام کررہے ملازم نثار احمد خان کا کہنا ہے کہ فٹنگ، ڈیزائن اور معیاری کپڑے سے بنائے جانے والے ان کے اوور کوٹ اور جیکٹ ہر عمر کے لوگ پسند کرتے ہیں جن میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں خاصی تعداد میں شامل ہیں۔
موسم سرما کے دوران شدید سردی کے بچاو کی خاطر وادی کشمیر میں جہاں گرم ملبوسات کی مانگ بڑھ جاتی ہیں۔
وہیں خوبصورت دکھنے کے لئے جدید ڈیزائنز سے بنائے گئے آفس فیرن، کوٹ اور جیکٹ وغیرہ بھی لوگ پہننا کافی پسند کرتے ہیں۔