جموں و کشمیر کے تعلق سے ایک بار پھر سیاسی ہل چل تیز ہو گئی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے 24 جون کو جموں و کشمیر کی مین اسٹریم جماعتوں کا کل جماعتی اجلاس نئی دہلی میں طلب کیا ہے۔
بتایا جا رہا ہے کہ مرکزی سرکار نے یہ اجلاس جموں و کشمیر میں جمہوری عمل کو پھر سے بحال کرنے کے لیے بلایا ہے۔ حالانکہ رواں ہفتے کی 24 تاریخ کو ہونے والے کل جماعتی اجلاس کو لےکر یہ بھی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ مرکز کی مودی حکومت جموں و کشمیر کے حوالے سے کسی بڑے فیصلے کی تیاری میں ہیں۔
ایسے میں اب جموں و کشمر میں سبھوں کی نگاہیں جمعرات دوپہر کے بعد نئی دہلی میں ہونے والے اجلاس پر مرکوز ہیں۔
ادھر اب کُل جماعتی اجلاس کے تعلق سے علاقائی مین اسٹریم جماعتوں سمیت عام لوگوں کے علاوہ دیگر تجزیہ کاروں کا ردعمل سامنے آرہا ہے۔
تجزیہ نگار رشید راہل اگرچہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں مرکزی رہنماؤں کے ساتھ جموں و کشمیر کی علاقائی جماعتوں کے ساتھ ہونے والی اس میٹنگ کو خوش آئند قرار دیتے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ اجلاس میں ہونے والے کسی بھی بڑے فیصلہ کا امکان نہیں ہے۔ جس کی قیاس آرائیاں اور چہ مگوئیاں کی جا رہی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ 1947 سے بی جے پی کا ایک پردھان ایک ودھان اور نشان کا نظریہ رہا ہے جس میں انہوں نے پانچ اگست 2019 میں جموں و کشمیر کے خصوصی حثیت ختم کیے جانے اور پھر ریاست کو دو یوٹیز میں تقسیم کرنے کے علاوہ جموں و کشمیر کو ملک کے ساتھ زم کرنے میں بھی کسی حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز الائز فار گپکار ڈکلریشن جو کہ دفعہ 370 اور 35 اے کی بحالی کے حوالے سے معرض وجود میں لائی گئی ہے کے ممبران کی جانب سے اس مٹینگ میں دفعہ 370 کی بحالی سے متعلق کسی خاص بات کے کم ہی امکانات ہیں کیونکہ یہ معاملہ عدالت عظمی میں ہے۔ جس کا فیصلہ آنے تک سبھی کو انتظار کرنا پڑے گا۔ ہاں جمہوری طرز کی حکومت بنانے کے لیے اسمبلی انتخابات اور نئی حد بندی سے متعلق گفتگو ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو برس سے عوام کی منتخب حکومت نہ ہونے کی وجہ سے تعمیر و ترقی کے فقدان اور لوگوں کے درپیش مسائل سے متعلق گفت و شنید کی جا سکتی ہے۔
ادھر سماجی کارکن ارشد احمد ڈار کہتے ہیں کہ جموں و کشمیر میں جمود کی شکار سیاسی سرگرمیاں مرکز کی جانب سے بحال کرنا کیا پہلے ہی لکھے گئے اسکرپٹ کے مطابق بحال ہو رہی ہیں یا اس کے پیچھے کسی دوسرے بیرون ملک کا ہاتھ ہے، اس پر لوگ اب بھی تذبذب کے شکار ہیں۔کیونکہ اگر یہاں کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو جموں و کشمیر میں جب بھی کوئی سیاسی تبدیلی رونما ہوئی وہ ایک خاص منصوبے کے تحت ہی عمل میں لائی گئی ہے۔
انہوں نے اجلاس میں شرکت سے متعلق علاقائی جماعتوں کے دعوت نامے پر پات کرتے ہوئے کہا کہ پی ڈی پی جو کہ لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے دفعہ 370 کی بحالی سے کم کسی بھی بات پر اتفاق سے گریز کرتی آئی ہے لیکن گزشتہ دو ماہ سے پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی کے بیانات میں کافی نرمی دیکھنے کو مل رہی ہے اور اس بیچ مرکز کے ساتھ ہونے والی بات چیت سے متعلق سب سے پہلے دعوت نامہ ملنے کی تصدیق کرنا اور چند گھنٹوں کے بعد ہی محبوبہ مفتی کے ماموں جان سرتاج مدنی اور پارٹی کے سنئیر رہنما نعیم اختر کی رہائی ۔اس طرح کی پیش رفت اور پی ڈی پی کی لچک میں تبدیلی عام ذہن میں کئی سوالات کھڑا کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم کی کل جماعتی میٹنگ سے قبل وادی میں سیاست گرم
تاہم انہوں نے امید ظہار کی کہ یہاں کی علاقائی جماعتیں جموں و کشمیر کے لوگوں کے توقعات اور خواہشات کی صحیح معنوں میں نمائندگی کریں گے۔
کُل جماعتی اجلاس سے متعلق سینئیر صحافی شوکت ساحل کہتے ہیں کہ یہ دیکھنے والی بات ہوگی کہ یہاں کی علاقائی جماعتیں جس میں نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی، پیپلز کانفرنس اور اپنی پارٹی کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتیں شامل ہیں کیا وہ نئی حد بندی اور اسمبلی انتحابات کا انعقاد عمل میں لائے جانے سے متعلق اتفاق کریں گی یا نہیں۔
انہوں نے کہا جس طرح یہاں کی سیاسی جماعتوں کو دلی بلایا گیا ہے۔ اسے یہ بات صاف عیاں ہے کہ مرکز اب جموں و کشمیر میں جلد عوامی جمہوری حکومت قائم کرنے کے حق میں ہے اور اس کے لیے یہاں کی سیاسی جماعتوں کو بھی اپنا موقف رکھنا چاہیے۔کیونکہ گفت و شنید سے ہی مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ڈی پی کے رویے میں نرمی کے چلتے ان کے دو سینئر رہنماوں کی رہائی اس بات کا عندیہ ہے کہ مرکز یہاں کی ہر ایک علاقائی سیاسی جماعت سے بات کرکے انتخابات کا بگل بجانا چاہتی ہے۔