جموں و کشمیر میں بیرونی ممالک کے سفارتکاروں کے دورے کے اختتام کے ایک روز بعد جمعہ کو وادی کشمیر میں کئی پُر تشدد واقعات پیش آئے ہیں جس میں تین پولیس اہلکار اور تین عسکریت پسند ہلاک ہوئے۔
اگرچہ مرکزی حکومت اور ایک سفارتکار نے کہا تھا کہ کشمیر میں اب ترقی و امن وامان کے حالات ہیں، تاہم آج کے ان پر تشدد واقعات نے ان دعوؤں پر سوالیہ نشان لگایا ہے۔
بیرونی سفارتکاروں کے دورے کے پہلے روز ہی سرینگر کے سونوار علاقے کے نزدیک عسکریت پسندوں نے ایک معروف ڈھابے کے مالک پر قاتلانہ حملہ کیا۔ اس واقعے کے کئی گھنٹے بعد آج باغات چوک میں عسکریت پسندوں نے دو پولیس اہلکاروں کو اندھا دھند گولیوں کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا۔
سیاسی رہنماؤں نے اس حملے کو بزدلانہ قرار دیتے ہوئے ہلاک شدہ پولیس اہلکاروں کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت کیا۔
لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے بھی اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کے پُرامن ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
حملے کے بعد کشمیر زون پولیس کے انسپکٹر جنرل وجے کمار نے ایک بیان میں کہا کہ سرینگر کے باغات برزلہ علاقے میں ہوئے حملے میں لشکر طیبہ کے دو عسکریت پسند ملوث ہیں جن میں ایک مقامی جبکہ دوسرا غیر ملکی ہے۔
پولیس نے حملے کی سی سی ٹی وی فوٹیج جاری کر دی جس میں ایک نوجوان کو پولیس اہلکار پر اندھا دھند گولیاں چلاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
فوٹیج میں ایک فرن پوش عسکریت پسند پولیس اہلکار پر گولیاں چلاتے ہوئے دیکھا گیا ہے جس کی پولیس نے شناخت بھی کی۔ پولیس کے مطابق یہ عسکریت پسند مقامی ہے اور اس نے ایک غیر ملکی عسکریت پسند کے ساتھ مل کر یہ حملہ کیا ہے۔
حملے کے فوراً بعد پولیس نے باغات علاقے کو محاصرے میں لے لیا۔ اس دوران پولیس نے ایک نوجوان کو پوچھ گچھ کے لیے گرفتار کیا، جس کے بعد آئی جی پی وجے کمار نے بتایا کہ حملے سے یہ نوجوان منسلک نہیں ہے۔
یہ سرینگر میں دوسرا ایسا حملہ ہے جس کی فوٹیج سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ اس سے قبل سرینگر کی مضافات میں واقع زینہ کوٹ میں گزشتہ برس عسکریت پسندوں نے دو فوجی اہلکاروں کو ہلاک کیا تھا جس کی فوٹیج منظر عام پر آئی تھی۔
حملے سے قبل ضلع بڈگام اور شوپیان میں دو تصادم آرائیوں میں تین عسکریت پسند اور ایک پولیس اہلکار ہلاک ہوا ہے جبکہ ایک اور پولیس اہلکار زخمی ہوا۔ سرینگر میں گزشتہ برس بھی پولیس اور سی آر پی ایف اہلکاروں پر متعدد حملے ہوئے تھے اور تصادم آرائیاں بھی ہوئیں۔
سنہ 2020 میں شہر سرینگر میں عسکریت مخالف کارروائیوں میں 16 عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا۔ سرینگر میں اگرچہ پتھر بازی کے واقعات زیادہ پیش آتے تھے اور متعدد نوجوانوں نے عسکری راہ بھی اختیار کر لی تھی جن میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی شامل تھے۔ تاہم مرکزی حکومت اور جموں و کشمیر انتظامیہ کے مطابق 5 اگست 2019 کے بعد سرینگر میں پتھر بازی اور عسکری واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے۔
گزشتہ برس سرینگر کے نٹی پورہ علاقے میں پی ڈی پی کے لیڈر پرویز بٹ پر عسکریت پسندوں نے حملہ کیا تھا جس دوران ان کا ایک محافظ اہلکار ہلاک ہوا تھا۔ اس واقع کے بعد نٹی پورہ اور چھانہ پورہ علاقوں سے تین نوجوانوں نے عسکریت پسندوں کی صف میں شامل ہونے کا اعلان کیا تھا۔ اور انکی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں۔
پولیس ذرایع کا کہنا ہے کہ یہ تین عسکریت پسند سرینگر میں سرگرم ہیں اور گزشتہ دو ماہ میں تین حملے کر چکے ہیں۔ گزشتہ برس غیر ریاستی صراف ستیہ پال نسچل کو انکی ہری سنگھ ہایی سٹریٹ میں واقع زیورات کی دکان پرمشتبہ عسکریت پسندوں نے ہلاک کیا تھا۔
جبکہ گزشتہ ماہ چھانہ پورہ علاقے میں ایک سی آر پی ایف اہلکار پر گولیاں چلا کر انکو زخمی کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
بھارتی فضائیہ نے جموں ایئر پورٹ بند کرنے کا حکم واپس لیا
ادھر کشمیر زون پولیس کے انسپکٹر جنرل وجے کمار نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ سکیورٹی فورسز کو خدشات ہیں کہ کشمیر میں موسم گرما شروع ہونے کے ساتھ عسکریت پسند اپنی کارروائیاں تیز کرنے کی کوشش کریں گے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ سکیورٹی فورسز عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کو ناکام بنانے اور ان کو ہلاک کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں تاکہ کشمیر میں امن و امن بحال رہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ سرینگر کبھی عسکریت پسندوں سے خالی نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ ایک طرف سے یہ شہر جہاں وادی کا مرکز ہے وہیں اس ضلع سے جنوبی اور شمالی کشمیر سے جڑنے والے راستے سکیورٹی کی باریک بینی کے باوجود عسکریت پسندوں کے لئے نقل و حرکت کرنے میں مدد دیتےہیں، جس کے سبب یہ شہر عسکریت پسندوں سے کبھی خالی نہیں ہوسکتا ہے۔