ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر کرس وین ہولن نے کہا کہ وہ کشمیر کے زمینی حقائق کو جاننے کے لیے سرینگر جانا چاہتے تھے، تاہم بھارتی حکومت نے انہیں وہاں جانے کی اجازت نہیں دی۔
بھارت کے ایک معروف قومی اخبار ' انڈین ایکسپریس کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کرس وین ہولن نے دعویٰ کیا کہ بھارتی حکومت نے انہیں بتایا کہ اس وقت کشمیر کا دورہ کرنا مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ 'وہ کشمیر کی زمینی صورتحال جاننا چاہتے ہیں، کشمیر میں مواصلاتی رابطے پر مسلسل پابندیاں عائد ہے، لیکن بھارتی حکومت انہیں جانے نہیں دے رہی ہے'۔
کرس وین ہولن نے کہا کہ ' میری ذاتی رائے ہے کہ اگر آپ کے پاس چھپانے کے لیے کچھ نہیں ہے، تو خوف زدہ ہونے کی کیا بات ہے ؟لوگوں کو کشمیر جانے کی اجازت دی جانے چاہیے'۔
واشنگٹن پوسٹ کا بھی حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'دنیا کی دو سب سے بڑے جمہوری ملک کی حیثیت سے، بھارت اور امریکہ مشترکہ اقدار کے بارے میں بہت زیادہ بات کرتے ہیں اور یہی وہ لمحہ تھا جہاں شفافیت ضروری تھی'۔
کرس وین ہولن نے کہا کہ ' مجھے بھارت سے بہت پیار ہے اور بھارت امریکہ کے مابین مضبوط تعلقات کی حمایت کرتا ہوں۔ مجھے ہندوستان سے گہرا پیار ہے اور ہند و امریکہ کے مضبوط تعلقات کی حمایت کرتا ہوں'۔
اگرچہ اس پر بھارتی حکومت کی جانب سے ابھی تک کوئی سرکاری ردعمل سامنے نہیں آیا ہے، سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ غیر ملکی معززین کو ان کی حفاظت اور سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے وہاں نہ جانے کا مشورہ دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ مرکزی حکومت کی جانب سے دفعہ 370 کو منسوخ کر کے ریاست کو دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیاہے۔ اس فیصلے کے خلاف مسلسل 2 ماہ سے ہڑتال جاری ہے۔
مرکزی حکومت نے اس فیصلے سے چند گھنٹے قبل ہی جموں و کشمیر میں بندیشیں، انٹرنیٹ خدمات معطل اور تمام مواصلاتی رابطے بند کر دئے تھے۔ گرچہ جموں اور لداخ میں موبائل فونز اور انٹر نیٹ خدمات بحال کیے گئے، تاہم وادی کشمیر میں ان خدمات پر بدستور پابندی ہے۔