ETV Bharat / state

'جموں و کشمیر میں بے روزگاری سے نوجوان ذہنی تناﺅ کا شکار'

author img

By

Published : Jun 16, 2021, 12:29 PM IST

علی محمد ساگر نے کہا کہ گزشتہ برسوں سے جاری غیر یقینی اور بے چینی سے یہاں کا نوجوان سب سے زیادہ متاثر ہوا اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری نے نئی نسل کو مزید پشت بہ دیوار کر کے رکھ دیا ہے۔

'جموں و کشمیر میں بے روزگاری سے نوجوان نسل ذہنی تناﺅ کا شکار'
'جموں و کشمیر میں بے روزگاری سے نوجوان نسل ذہنی تناﺅ کا شکار'

نیشنل کانفرنس جنرل سکریٹری ایڈوکیٹ علی محمد ساگر نے الزام لگایا ہے کہ جموں و کشمیر کا ہر ایک شعبہ اس وقت تنزلی کا شکار ہے جبکہ حکمران اور اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگ تعمیر و ترقی اور امن و امان کے بڑے بڑے دعوے کر رہے ہیں لیکن زمینی سطح پر حالات ان دعوﺅں کے عین برعکس ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو سال کے دوران کشمیر کو اندھیروں میں ڈھکیلنے کے سوا اور کوئی کام نہیں ہوا ہے۔ تعمیر و ترقی کا کہیں نام و نشان نہیں، امن و امان کی صورتحال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے جبکہ اظہار رائے کی آزادی مکمل طور پر سلب کر دی گئی ہے۔

ساگر نے کہا کہ جمہوریت کا فقدان اور افسر شاہی اداروں اور نظام کے لئے سم قاتل ثابت ہو رہی ہے اور غیر ریاستی افسران کی بھرمار نے انتظامی انتشار اور خلفشار میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسلسل دو سال بند رہنے سے یہاں بے روزگاری ایک بہت ہی سنگین مسئلہ بن کر سامنے آیا ہے۔ جموں و کشمیر میں اس وقت بے روزگاری حد سے تجاوز کر گئی ہے اور حکومت اس جانب کوئی بھی توجہ مرکوز نہیں کر رہی ہے۔ صرف زبانی جمع خرچ اور کاغذی گھوڑے دوڑائے جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دوہرے لاک ڈاﺅن سے یہاں کا پرائیویٹ سیکٹر بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے اور لاکھوں لوگ بے روزگار ہو گئے۔

انہوں نے کہا کہ لاتعداد اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان عمر کی حد پار کر گئے ہیں جبکہ بہت سارے اس حد کو پہنچنے کے قریب ہیں۔

ساگر نے کہا کہ گزشتہ برسوں سے جاری غیر یقینی اور بے چینی سے یہاں کا نوجوان سب سے زیادہ متاثر ہوا اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری نے نئی نسل کو مزید پشت بہ دیوار کر کے رکھ دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حالات اتنے سنگین ہو گئے ہیں کہ اب ہماری نوجوان نسل ذہنی تناﺅ کا شکار ہوگئی ہے اور آئے روز خودکشی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔

ساگر نے کہا کہ جموں و کشمیر میں اس وقت 50 ہزار سے زائد خالی اسامیاں پڑی ہیں۔ گزشتہ تین برسوں سے ان بھرتیوں کو سریع الرفتاری سے پُر کرنے کے اعلانات تو کئے جاتے ہیں لیکن علمی طور پر کوئی قدم نہیں اُٹھایا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ میں اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ گزشتہ تین برسوں سے بے روزگاری حد سے تجاوز کر گئی ہے لیکن اس کا سدباب کرنے کے لئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا جارہا ہے۔

ساگر نے کہا کہ حد سے زیادہ مہنگائی اور کساد بازاری نے بھی یہاں کے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں جس کا براہ راست اثر عام آدمی پر پڑ رہا ہے۔

یو این آئی

نیشنل کانفرنس جنرل سکریٹری ایڈوکیٹ علی محمد ساگر نے الزام لگایا ہے کہ جموں و کشمیر کا ہر ایک شعبہ اس وقت تنزلی کا شکار ہے جبکہ حکمران اور اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگ تعمیر و ترقی اور امن و امان کے بڑے بڑے دعوے کر رہے ہیں لیکن زمینی سطح پر حالات ان دعوﺅں کے عین برعکس ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو سال کے دوران کشمیر کو اندھیروں میں ڈھکیلنے کے سوا اور کوئی کام نہیں ہوا ہے۔ تعمیر و ترقی کا کہیں نام و نشان نہیں، امن و امان کی صورتحال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے جبکہ اظہار رائے کی آزادی مکمل طور پر سلب کر دی گئی ہے۔

ساگر نے کہا کہ جمہوریت کا فقدان اور افسر شاہی اداروں اور نظام کے لئے سم قاتل ثابت ہو رہی ہے اور غیر ریاستی افسران کی بھرمار نے انتظامی انتشار اور خلفشار میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسلسل دو سال بند رہنے سے یہاں بے روزگاری ایک بہت ہی سنگین مسئلہ بن کر سامنے آیا ہے۔ جموں و کشمیر میں اس وقت بے روزگاری حد سے تجاوز کر گئی ہے اور حکومت اس جانب کوئی بھی توجہ مرکوز نہیں کر رہی ہے۔ صرف زبانی جمع خرچ اور کاغذی گھوڑے دوڑائے جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دوہرے لاک ڈاﺅن سے یہاں کا پرائیویٹ سیکٹر بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے اور لاکھوں لوگ بے روزگار ہو گئے۔

انہوں نے کہا کہ لاتعداد اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان عمر کی حد پار کر گئے ہیں جبکہ بہت سارے اس حد کو پہنچنے کے قریب ہیں۔

ساگر نے کہا کہ گزشتہ برسوں سے جاری غیر یقینی اور بے چینی سے یہاں کا نوجوان سب سے زیادہ متاثر ہوا اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری نے نئی نسل کو مزید پشت بہ دیوار کر کے رکھ دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حالات اتنے سنگین ہو گئے ہیں کہ اب ہماری نوجوان نسل ذہنی تناﺅ کا شکار ہوگئی ہے اور آئے روز خودکشی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔

ساگر نے کہا کہ جموں و کشمیر میں اس وقت 50 ہزار سے زائد خالی اسامیاں پڑی ہیں۔ گزشتہ تین برسوں سے ان بھرتیوں کو سریع الرفتاری سے پُر کرنے کے اعلانات تو کئے جاتے ہیں لیکن علمی طور پر کوئی قدم نہیں اُٹھایا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ میں اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ گزشتہ تین برسوں سے بے روزگاری حد سے تجاوز کر گئی ہے لیکن اس کا سدباب کرنے کے لئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا جارہا ہے۔

ساگر نے کہا کہ حد سے زیادہ مہنگائی اور کساد بازاری نے بھی یہاں کے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں جس کا براہ راست اثر عام آدمی پر پڑ رہا ہے۔

یو این آئی

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.