جموں و کشمیر کے ضلع راجوری کے پیڑی گاؤں کے تین نوجوان مزدوروں کی شوپیان میں گمشدگی پر جموں و کشمیر پیپلز موومنٹ کے نائب صدر راجا محمود خان نے حکومت کو ہدف تنقید بنایا'۔
راجا محمود خان کے مطابق' راجوری کے تین نوجوان شوپیاں میں مزدوری کرنے گئے تھے، وہاں فوج نے انہیں مبینہ فرضی جھڑپ میں ہلاک کر دیا اور آج تک حکومت نے ان کے لواحقین کو کسی طرح کی مدد نہیں کی اور نہ ہی ڈی این اے سیمپل کے نتائج منظر عام پر لائے جس کے سبب ان کے لواحقین کو تشویش لاحق ہے'۔
انہوں نے کہا کہ' کشمیر میں اس طرح کے فیک انکاؤنٹرز ہوتے رہے ہیں، لیکن آج تک اس تعلق سے کوئی تحقیقات نہیں ہوئی۔ آپ کو بتا دیں کہ 'راجوری ضلع سے تعلق رکھنے والے ان نوجوانوں کے اہل خانہ نے لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا سے اپیل کی ہے کہ تینوں نوجوانوں کے ڈی این اے نمونوں کے نتائج منظر عام پر لائے جائیں'۔
انہوں نے پولیس محکمہ کی جانب سے نمونوں کی جانچ میں تاخیر پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ جموں و کشمیر پولیس نے اگست میں تینوں کنبوں کے ڈی این اے نمونے حاصل کئے تاہم آج تک ڈی این اے نمونوں کے نتائج سامنے نہیں آئے۔
جموں و کشمیر پولیس کے مطابق ڈی این اے سیمپل کے نمونے دو فورانسک لیبارٹریز کو بیجھے گئے جن میں فورانسک سائنس لیبارٹری سرینگر اور سنٹرل فورانسک لیبارٹری چنڈی گڑھ شامل ہیں۔
مزید پڑھیں:
'کشمیر وقف میں مرکزی مداخلت شروع ہوگی'
واضح رہے کہ' سوشل میڈیا پر 18 جولائی کو شوپیان تصادم میں ہلاک ہوئے مبینہ عسکریت پسندوں اور راجوری کے تین لاپتہ نوجواں کی تصویریں وائرل ہونے کے بعد شوپیان انکاؤنٹر پر سوالات اُٹھنے شروع ہوگئے ہیں۔ کشمیر پولیس کی ٹیم ڈی ایس پی وجاہت کی سربراہی میں راجوری پہنچی جہاں انہوں نے راجوری پولیس کے تعاون سے تینوں کنبہ کے افراد سے ملاقات کی اور ان کے نمونے لیے تھے لیکن اس تعلق سے اب تک کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی'۔