سول سروس امیدواروں کا کہنا ہے کہ 'اگر چہ شاہ فیصل نے بیورو کریسی کو خیرباد کر کے سیاسی میدان میں اپنی قسمت آزمانے کی کوشش کی۔ تاہم وہ آج بھی ان کے نقش قدم پر گامزن ہیں۔
شمالی کشمیر کے ضلع کپواڑہ سے تعلق رکھنے والے شاہ فیصل، سنہ 2010 میں پورے بھارت میں انڈین ایڈمنسٹریٹیو سروس میں ٹاپ کرکے نہ صرف بھارت بلکہ جموں و کشمیر کے سول سروس امیدواروں کے لیے بھی رول ماڈل بنے تھے۔
سنہ 2010 کے بعد جموں و کشمیر، خاص کر وادی کے نوجوانوں کا رجحان سول سروس کی طرف تیزی سے بڑھنے لگا۔
تاہم دس برس کی سروس کے بعد انہوں نے جنوری 2019 میں انڈین ایڈمنسٹریٹیو سروس سے استعفی دے کر اپنی مین اسٹریم سیاسی جماعت جموں و کشمیر پیپلز مومنٹ کی بنیاد ڈال کر ایک نئے باب کا آغاز کیا لیکن گزشتہ برس پانچ اگست کو بی جے پی قیادت والی حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سمیت متعدد سیاسی کارکنوں اور نوجوانوں کو حراست میں لے کر کشمیر میں بندشیں عائد کی تھیں۔
ان رہنماؤں میں شاہ فیصل بھی شامل ہیں اور رواں ماہ میں انہیں سرینگر کے مجسٹریٹ نے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت بند کیا ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے وادی کشمیر کے سول سروس کے نوجوان امیداروں کا کہنا ہے کہ 'شاہ فیصل نے سیاسیی میدان میں قدم رکھ کر اپنے نظریات یا راہ بدل دی لیکن اس سے ان پر کوئی اثر نہیں پڑا۔'
ان کا کہنا تھا کہ شاہ فیصل کے ٹاپ کرنے کے بعد نوجوانوں کی سوچ سول سروس امتحانات کے تئیں بدل گئی اور انہوں نے بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کا ذہن بنایا۔