ETV Bharat / state

جنید صحرائی کون تھے

جنید صحرائی کی ہلاکت، حزب المجاہدین کے لئے تنظیم کے چیف کمانڈر آپریشنز ریاض نائیکو کی ہلاکت کے بعد اس ماہ کے دوران دوسرا سب سے بڑا دھچکہ ہے۔ سیکورٹی فورسز نے اس ہلاکت کا بڑا کارنامہ قرار دیا ہے۔

جنید سحرائی کون تھے
جنید سحرائی کون تھے
author img

By

Published : May 19, 2020, 4:11 PM IST

Updated : May 19, 2020, 8:24 PM IST

جنید صحرائی نے 24 مارچ 2018 کو حزب المجاہدین میں شامل ہونے کا اعلان کیا تھا اور دو سال دو ماہ کی مدت کے دوران سیکیورٹی فورسز نے انہیں ہلاک کردیا۔

صحرائی کا عسکریت پسندوں کی صف میں شامل ہونا اسلئے بڑی خبر بن گیا تھا کیونکہ انکے والد محمد اشرف خان صحرائی، علیحدگی پسند اتھاد حریت کانفرنس کے سینئر ترین لیڈروں میں شامل ہوتے ہیں۔ صحرائی ، سید علی شاہ گیلانی کے ساتھی رہے ہیں اور اسوقت گیلانی کی شروع کردہ جماعت تحریک حریت کے چیئرمین ہیں۔

سرینگر کے بالائی علاقہ برزلہ میں رہائش پزیر صحرائی جب لاپتہ ہوئے تھے تو انکے اہل خانہ نے مقامی پولیس اسٹیشن میں انکے لاپتہ ہونے کی رپورٹ درج کی تھی، تاہم چند روز بعد ہی جنید کی ہاتھوں میں بندوق لیے، تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔

سنہ 2016 کے بعد کشمیر میں عسکریت پسندوں کے ساتھ شامل ہونے والے نوجوان ہاتھوں میں بندوق تھامے اپنی تصویریں سوشل میڈیا پر شائع کرکے عسکری صفوں میں شامل ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔

کشمیر کی عسکری تاریخ میں یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جب کسی سرکردہ علیحدگی پسند رہنما کے فرزند نے کسی عسکری تنظیم میں شمولیت اختیار کی ہو۔

اشرف صحرائی دراصل شمالی کشمیر کے ضلع کپوارہ کے لولاب علاقے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ گزشتہ کئی برسوں سے سرینگر کے باغات برزلہ میں رہائش پزیر ہیں۔

جنید صحرائی نے کشمیر یونیورسٹی میں ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی تھی اور اسکے ایک سال بعد ہی وہ عسکریت پسند تنظیم حزب المجاہدین میں شامل ہوئے تھے۔

جنید صحرائی کی حزب میں شمولیت پر اس وقت کے پولیس سربراہ ایس پی وید نے انکے والدکو میڈیا کے ذریعے کہا تھا کہ وہ اپنے فرزند کو عسکریت کا راستہ ترک کرکے واپس گھر لوٹنے کی اپیل کریں، جس کو اشرف صحرائی نے مسترد کر دیا تھا۔

جنید صحرائی نے کشمیر یونیورسٹی سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی تھی اور وہ ان نوجوانوں میں شامل تھے جو اعلیٰ تعلیمیافتہ ہونے کے باوجود عسکریت پسندوں کی صف میں شامل ہوئے۔ اس سے قبل ضلع کپوارہ کے لولاب علاقے سے تعلق رکھنے والے منان وانی اور وسطی کشمیر کے ضلع گاندربل کے محمد رفیع عسکریت پسندوں کی صفوں میں شامل ہوئے تھے۔

منان وانی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کر رہے تھے جبکہ محمد رفیع کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ سماجیات میں بطور کنٹریکچول اسسٹنٹ پروفیسر کام کر رہے تھے، یہ دونوں عسکریت پسند گزشتہ برسوں میں دو مختلف معرکہ آرائیوں میں ہلاک ہوئے تھے۔

جنید صحرائی حالیہ دنوں ہلاک شدہ حزب المجاہدین کمانڈر ریاض نائیکو کے قریبی ساتھی بھی مانے جاتے ہیں۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ جنید صحرائی ریاض نائیکو کے ساتھ جنوبی کشمیر میں بھی سرگرم تھے۔ ریاض نائیکو کی ہلاکت کے وقت انکے ساتھ جنید کی ہلاکت کی خبریں بھی سامنے آئی تھیں۔

جنید کو سیکیورٹی فورسز نے مصدقہ اطلاعات کی بنیاد پر سرینگر کے شہر خاص میں گھنے ریائشی مکانات میں گھیر لیا جس کے بعد اس علاقے میں گھر گھر تلاشی کارروائی شروع کی گئی جو گولیوں کے تبادلوں کے ساتھ ہی چھڑپ میں تبدیل ہوگئی۔ دوپہر تک جاری رہنے والے اس تصادم میں چند رہائشی مکانات بھی دھماکوں سے تباہ ہو گئے ہیں۔

جنید صحرائی نے 24 مارچ 2018 کو حزب المجاہدین میں شامل ہونے کا اعلان کیا تھا اور دو سال دو ماہ کی مدت کے دوران سیکیورٹی فورسز نے انہیں ہلاک کردیا۔

صحرائی کا عسکریت پسندوں کی صف میں شامل ہونا اسلئے بڑی خبر بن گیا تھا کیونکہ انکے والد محمد اشرف خان صحرائی، علیحدگی پسند اتھاد حریت کانفرنس کے سینئر ترین لیڈروں میں شامل ہوتے ہیں۔ صحرائی ، سید علی شاہ گیلانی کے ساتھی رہے ہیں اور اسوقت گیلانی کی شروع کردہ جماعت تحریک حریت کے چیئرمین ہیں۔

سرینگر کے بالائی علاقہ برزلہ میں رہائش پزیر صحرائی جب لاپتہ ہوئے تھے تو انکے اہل خانہ نے مقامی پولیس اسٹیشن میں انکے لاپتہ ہونے کی رپورٹ درج کی تھی، تاہم چند روز بعد ہی جنید کی ہاتھوں میں بندوق لیے، تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔

سنہ 2016 کے بعد کشمیر میں عسکریت پسندوں کے ساتھ شامل ہونے والے نوجوان ہاتھوں میں بندوق تھامے اپنی تصویریں سوشل میڈیا پر شائع کرکے عسکری صفوں میں شامل ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔

کشمیر کی عسکری تاریخ میں یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جب کسی سرکردہ علیحدگی پسند رہنما کے فرزند نے کسی عسکری تنظیم میں شمولیت اختیار کی ہو۔

اشرف صحرائی دراصل شمالی کشمیر کے ضلع کپوارہ کے لولاب علاقے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ گزشتہ کئی برسوں سے سرینگر کے باغات برزلہ میں رہائش پزیر ہیں۔

جنید صحرائی نے کشمیر یونیورسٹی میں ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی تھی اور اسکے ایک سال بعد ہی وہ عسکریت پسند تنظیم حزب المجاہدین میں شامل ہوئے تھے۔

جنید صحرائی کی حزب میں شمولیت پر اس وقت کے پولیس سربراہ ایس پی وید نے انکے والدکو میڈیا کے ذریعے کہا تھا کہ وہ اپنے فرزند کو عسکریت کا راستہ ترک کرکے واپس گھر لوٹنے کی اپیل کریں، جس کو اشرف صحرائی نے مسترد کر دیا تھا۔

جنید صحرائی نے کشمیر یونیورسٹی سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی تھی اور وہ ان نوجوانوں میں شامل تھے جو اعلیٰ تعلیمیافتہ ہونے کے باوجود عسکریت پسندوں کی صف میں شامل ہوئے۔ اس سے قبل ضلع کپوارہ کے لولاب علاقے سے تعلق رکھنے والے منان وانی اور وسطی کشمیر کے ضلع گاندربل کے محمد رفیع عسکریت پسندوں کی صفوں میں شامل ہوئے تھے۔

منان وانی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کر رہے تھے جبکہ محمد رفیع کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ سماجیات میں بطور کنٹریکچول اسسٹنٹ پروفیسر کام کر رہے تھے، یہ دونوں عسکریت پسند گزشتہ برسوں میں دو مختلف معرکہ آرائیوں میں ہلاک ہوئے تھے۔

جنید صحرائی حالیہ دنوں ہلاک شدہ حزب المجاہدین کمانڈر ریاض نائیکو کے قریبی ساتھی بھی مانے جاتے ہیں۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ جنید صحرائی ریاض نائیکو کے ساتھ جنوبی کشمیر میں بھی سرگرم تھے۔ ریاض نائیکو کی ہلاکت کے وقت انکے ساتھ جنید کی ہلاکت کی خبریں بھی سامنے آئی تھیں۔

جنید کو سیکیورٹی فورسز نے مصدقہ اطلاعات کی بنیاد پر سرینگر کے شہر خاص میں گھنے ریائشی مکانات میں گھیر لیا جس کے بعد اس علاقے میں گھر گھر تلاشی کارروائی شروع کی گئی جو گولیوں کے تبادلوں کے ساتھ ہی چھڑپ میں تبدیل ہوگئی۔ دوپہر تک جاری رہنے والے اس تصادم میں چند رہائشی مکانات بھی دھماکوں سے تباہ ہو گئے ہیں۔

Last Updated : May 19, 2020, 8:24 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.