سرینگر: روسی سفیدوں سے اُڑنے والی روئی نہ صرف ماحول کو آلودہ کر رہی ہے بلکہ الرجی کے ذریعے عام لوگ بیمار پڑ رہے ہیں۔ روسی سفیدے اور ان سے اُڑنے والی روئی وادی کشمیر کے لوگوں کے لیے کسی نئے عذاب سے کم نہیں ہے۔ سفیدے کے درختوں پر روئی (Cotton) نما پھول کھلتے ہیں جو پولن الرجی، آنکھوں کی مختلف بیماریوں، زکام، پھیپھڑے اور گلے کے انفیکشن اور جلد کے امراض کا باعث بنتے ہیں۔پولن الرجی یعنی موسمیاتی الرجی ،علامات ،احتیاط اور علاج سے متعلق ای ٹی وی بھارت کے نمائندے پرویز الدین نے وادی کے معروف پلمنولوجسٹ ڈاکٹر نوید نظیر شاہ سے خصوصی بات چیت کی۔
انہوں نے کہا کہ پولن الرجی، الرجی کی ایک ایسی قسم ہے جس میں زیادہ تر لوگ موسم بہار اور خزاں میں متاثر ہوتے ہیں۔ پولن ایک بہت ہی باریک زرات ہے جو درختوں ، پھولوں اور گھاس سے خارج ہوتے ہیں اور پھر ہوا میں موجود یہی زرات سانس لینے والے لوگوں میں سے بعض کو متاثر کرتے ہے اور ان میں الرجی کا باعث بنتے ہیں۔ روسی سفیدے سے خارج ہونے والی روئی پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر نوید نے کہا کہ اس سے بھی الرجی ہوتی ہے تاہم یہ انفیکشن یا الرجی پالن سے زیادہ خطرناک نہیں ہے۔ یہ بات بھی تحقیق میں سامنے آئی کہ روسی سفیدے کی روئی اتنی خطرناک نہیں ہے جتنا کہ دیگر جڑیی بوٹیوں، گھاس اور جھاڑیوں وغیرہ کے پولن ہوتے ہیں ۔اب فرق یہ ہے کہ ہمیں کھلی آنکھ سے سیفدے کی روئی دکھائی دیتی ہے اس لیے اس موسم میں کشمیر میں الرجی کی سب سے بڑی وجہ روسی سفیدے کو ہی مانا جاتا ہے۔
ڈاکٹر نوید نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اس وقت آبادی کا بڑا پولن الرجی اور دیگر موسمی الرجی سے متاثر ہیں۔ایسے میں روزانہ کی او پی ڈی میں الجریک مریضوں کی تعداد میں اصافہ ہو رہا ہے،جبکہ ان مریضوں میں موسمی امراض کی علامات دیکھی جارہی ہے جس میں آنکھوں میں خارش، پانی آنا، گلے میں خراش، کھانسی ،بخار، ناک بہنا، مسلسل چھینکے آنا اور سانس لینے میں دشواری وغیرہ شامل ہیں۔
بات چیت کے دوران انہوں نے کہا کہ امسال اس طرح کے مریضوں کی تعداد گزشتہ برسوں کے مقابلے میں زیادہ دیکھنے میں نہیں آرہی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ کووڈ کے رہنما خطوط کو عملاتے ہوئے اکثر لوگ ماسک کا استعمال کیا کرتے تھے لیکن اب اکثر لوگوں نے ماسک کا استعمال کرنا چھوڑ دیا جس کے نیچے میں اس وقت پولن سے نہ صرف بڑے بلکہ اسکول جانے والے بچے بھی متاثر ہورہے ہیں ۔
مزید پڑھیں: Allergic Cough and Cold بچوں میں الرجِک کھانسی کے کئی اسباب ہیں
الرجی سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں کہا کہ الرجی کی بیماری موروثی ہوتی ہے۔ اس کے علامات اکثر بچپن سے ہی ظاہر ہوتے ہیں جس کے نیچے میں پھر پولن یا دیگر موسمی تبدیلیاں الرجیک مریضوں کو زیادہ متاثر کرتی ہے۔ ڈاکٹر نوید نے کہا کہ الرجی کی بیماری ایک انسان سے دوسرے میں منتقل نہیں ہوتی ہے۔
ایسے میں اس موسم میں تمام لوگوں خاص کر الرجیک افراد کو سخت احتیاط اپنانے کی ضرورت ہے،جس میں ماسک کا استعمال کرنا بڑا اہم ہے ۔ اپنے ڈاکٹر کے مشورے پر ہی ادویات کا استعمال کیا جانا چاہئے۔ جبکہ اپنے طور کوئی بھی اینٹی الرجی ادویات کا استعمال کرنے سے پرہیز کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اس موسم میں اکثر لوگ ازخود ہی اینٹی الرجی دوائی کھاتے ہیں اور کئی سارے تو اینٹی بائیوٹک کا بھی استعمال کرتے رہتے ہیں جو کہ ایک خطرناک اور مضر صحت طرز عمل ہے۔