جی ہاں میوہ صنعت سے وابستہ لوگ پہلے ہی خسارے سے دو چار ہیں۔ میوہ کاشتکار رواں برس یہ آس لگائے بھیٹے ہیں کہ باغات کی بہتر دیکھ ریکھ، زرعی یونیورسٹی کے تسلیم اور ماہرین کے تجویز شدہ ادویات کے استعمال سے بھر پور اور معیاری فصل تیار ہوگی، جس کی بدولت پچھلے نقصانات کی بھرپائی بھی ممکن ہو پائے گی، لیکن بازار میں ناقص ادویات میوہ صنعت سے جڑے افراد کی امیدوں پر پھر سے پانی پھیر رہے ہیں۔
میوہ کاشتکار اپنے باغات کو مختلف بیماریوں سے دور رکھنے کے لیے ماہرین کی جانب واضح کئے گئے شڈول کے مطابق وقت-وقت پر جراثیم کش ادویات کا چھڑکاو تو کر تے رہتے ہیں لیکن اکثر باغ مالکان یہ شکایت کرتے ہیں کہ میوہ درختوں پر لگنے والی مختلف بیماروں کو قابو میں کرنے کے لیے ان ادویات کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آ رہے ہیں، جس کے باعث کسان مزید پریشانی اور تذبذب میں مبتلا ہو گئے ہیں۔
اس وقت بازاروں میں غیر معیاری کھاد اور اونچی قیمتوں کی لیبل چسپان کئے ہوئے طرح-طرح کے جراثیم کش ادویات اگرچہ دستیاب ہیں تاہم سکیب، الٹرنیریاں اور دیگر بیماروں کو ختم کرنے میں یہ ادویات ناکام ہو رہے ہیں۔ اس حوالے سے محکمہ ہارٹیکلچر کے افسران بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ادویات ملاوٹی یا غیر معیاری ہو سکتے ہیں۔ جس سے بہتر نتائج سامنے نہیں آ رہے ہیں۔
میوہ صنعت سے جڑے افراد کہتے ہیں کہ غیر معیاری کھاد اور ادویات پر مکمل طور قدغن لگانے میں متعلقہ محکمہ ناکام نظر آ رہا ہے۔ جس کے چلتے اس صنعت کو مزید نقصان کا احتمال ہے۔کیونکہ یہاں کا میوہ کالٹی کے اعتبار سے ملکی اور بین الاقومی منڈیوں میں مقابلہ نہیں کر پاتا ہے۔
ادھر ڈپٹی ڈائریکٹر ہارٹیکلچر کہتے ہیں اگچہ غیر معیاری ادویات کی روکتھام کے لیے محکمہ کام کر رہا ہے، لیکن وادی کشمیر میں جراثیم کش ادویات کے لیے تشخیصی مراکز کی کمی کی وجہ سے صحیح معنوں میں نقلی اور اصلی دوا کی جانچ وقت پر نہیں ہو پاتی ہے جس کے چلتے غیر معیاری ادویات بازاروں میں آنے کی گنجائش زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ متعلقہ محکمہ غیر معیاری کھاد اور ادویات کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف فوری کاروائی عمل میں لاکر یہاں کی میوہ صنعت کو مزید نقصانات سے بچانے کے لیے اپنی فرض شناسی کا ثبوت پیش کریں۔