نیشنل کافرنس کے صدر اور رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے پیر کے روز پارٹی دفتر میں 13 جولائی کے شہداء کو خراج تحسین پیش کیا۔پارٹی کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ "انتظامیہ کی جانب سے یوم شہداء کے موقع پر عائد پابندیوں کے پیش نظر فاروق عبداللہ نے سرینگر میں واقع پارٹی دفتر میں آج تمام شہداء کو خراج تحسین پیش کیا۔"
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ "اس موقع پر قرآن اور فاتحہ خوانی بھی کی گئی۔ فاروق عبداللہ کے علاوہ پارٹی کے دیگر سینئر لیڈر بھی تقریب میں موجود تھے۔"
ادھر نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی اس سلسلہ میں ٹویٹ کیا۔ انہوں نے پارٹی کے ٹویٹ کو ری ٹویٹ کیا: 'شخصی راج کے خلاف جدوجہد میں عوام نے بے پناہ ہمت اور جوانمردی کا مظاہرہ کیا تھا اور شہدائے کشمیر کی قربانیاں اُسی جذبے کی علامت ہیں۔ یہ عظیم قربانیاں ہماری خودداری اور آبرو کی ضامن ہیں۔ نیشنل کانفرنس اِنہی قربانیوں کی پیداوار ہے اور قربانیوں کے اِس مسلسل عمل کو جاری رکھے ہوئے ہے۔'
یہ بھی پڑھیں: یومِ شہداء کے موقع پر سرینگر میں تحدیدات
واضح رہے کہ گزشتہ برس کی طرح امسال بھی یوم شہداء کے موقع پر پراسرار خاموشی چھائی رہی۔ شہر سرینگر کے خواجہ بازار میں واقع مزار شہداء میں 13 جولائی 1931 کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش نہیں کیا جا سکا۔ شہر خاص جانے والے تمام راستوں کو بریکیڈز اور خاردار تاروں سے بند کیا گیا ہے۔ جبکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کے لیے پولیس کے علاوہ فورسز کی بھاری تعیناتی عمل میں لائی گئی ہے۔
اگرچہ گزشتہ روز وادی کی تاہم سیاسی اور علحیدگی پسند جماعتوں نے اپنے بیانات کے ذریعے ان شہداء کو خراج تحسین پیش کیا تاہم آج مزار شہداء پر خاموشی ہی چھائی رہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کشمیر کی تاریخ میں یہ ایسا واحد واقعہ ہے جس پر مین اسٹریم سیاسی رہنماؤں اور علیٰحدگی پسندوں کا اتفاق ہے۔ لیکن بی جے پی 1931 میں پیش آئے واقعہ سے متعلق اپنا ایک الگ نظریہ رکھتی ہے۔
5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حثیت ختم کئے جانے، جموں وکشمیر اور لداخ کو دو وفاقی علاقوں میں تبدیل کیے جانے کے بعد مزار شہداء واقع نقشبندی صاحب میں کسی کو بھی حاضری دینے کی اجازت نہیں دی گئی۔