ٹورسٹ ٹیکسی ڈرائیورز ٹرانسپورٹ کا وہ حصہ ہے جن کا روزگار سیاحوں کی آمد پر ہی منحصر ہے۔ گزشتہ برس پانچ اگست کو دفعہ 370 کی منسوخی سے قبل سرکار نے جموں و کشمیر سے سیاحوں کا انخلاء کیا تھا، تب سے یہ لوگ بے کار بیٹھے ہیں۔
سرینگر کے ٹورسٹ ٹیکسی سٹینڈ میں سینکڑوں گاڑیاں دھول چاٹ رہی ہیں اور ان کے ڈرائیورز سیاحوں کے منتظر ہیں۔ اگرچہ پانچ اگست کے بعد عائد قدغنوں کو ہٹا لیا گیا لیکن کورونا وائرس کی وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے انتظامیہ کو لاک ڈاون نافذ کرنا پڑا جس سی انکی رہی سہی کسر بھی پوری ہوگئی۔ یعنی یہ پوری طرح بے روزگار ہوگئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: 'جموں و کشمیر میں پراپرٹی ٹیکس عائد نہیں ہوگا'
ایک طرف یہ لوگ دو پیسوں کے لیے ترس رہے ہیں وہیں گاڑیوں کا انشورنس، ٹوکن فیس اور دیگر ٹیکس ادا کرنا انکی پریشانیوں میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔
کبھی کبھار اگر ان کو ایئرپورٹ سے کوئی مخصوص مسافر یا اِکا دُکا سیاح کو جب یہ لانے جاتے ہیں تو انہیں ٹریفک پولیس پریشان کرتی ہے۔ اب ان کا کہنا ہے کہ یہ کریں تو کریں کیا؟
لیفٹینٹ گورنر انتظامیہ نے لاک ڈاون سے ہوئے نقصان کا کچھ ازالہ کرنے کے لئے تاجروں کو معاشی پکیج دیا ہے۔ لیکن ٹرانسپورٹرز کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
ٹورسٹ ٹیکسی ڈرائیورز کا کہنا ہے کہ سرکار انکے لیے بھی مالی پیکج یا انشورنش میں کچھ رعایت کا اعلان کرے تاکہ ان پر قرضوں کا بوجھ کچھ کم ہو۔