سرینگر: ہائی کورٹ آف جموں و کشمیر اینڈ لداخ نے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت کشمری صحافی سجاد احمد ڈار کی نظر بندی کو کالعدم قرار دیا ہے۔ کورٹ نے مشاہدہ کیا کہ ملزم کو نظربند کے حوالے سے تمام دستاویز فراہم نہیں کیے گئے تھے جس کی وجہ سے وہ اپنی نظربندی کے خلاف صحیح طرح سے نمائندگی نہیں کر پائے۔
کورٹ نے کہا کہ گزشتہ برس دسمبر مہینے کی یکم تاریخ کو کورٹ کے فیصلے کو ایک طرف رکھا جاتا ہے اور نظربند سجاد ڈار کے خلاف پی ایس اے کو کلعدم قرار دیا جاتا ہے اور عدالت ان کی رہائی کا حکم دیتی ہے۔
چیف جسٹس این کوٹیشور سنگھ اور جسٹس ایم اے چودھریکی بینچ نے رواں مہینے کی نو تاریخ کو کشمیری صحافی سجاد گُل کی رہاہی کا فیصلہ سننتے ہوئے کہا کہ "گزشتہ برس جنوری مہینے کی 14 تاریخ کو ضلع مجسٹریٹ بانڈی پورہ کی جانب سے سجاد احمد ڈار عرف سجاد گل کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، جس کے بعد گل کی جانب سے رٹ پیشن دائر کی گئی جس میں دعوی کیا گیا کہ وہ امن پسند اور قانون پر عمل کرنے والے شہری ہیں اور انہوں نے کبھی پبلک آرڈر اور ریاست کی سلامتی کے خلاف کچھ نہیں کیا۔
رٹ پٹیشن میں سجاد نے یہ بھی دعوی کیا کہ پولیس نے اُنہیں بنا کسی وجہ گرفتار کر کے کئی دنوں تک قید میں رکھا اور ان کے خلاف تین ایف ائی ار (زیر نمبر 12/2021، 79/2021 اور 02/2022) پولیس اسٹیشن حاجن میں درج کیے گئے۔ اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی دعوی کیا کہ جب ان پر پی ایس اے کا مقدمہ دائر کیا گیا تھا وہ جموں سینٹرل جیل میں زیر حراست میں تھے۔"
دو رکنی بینچ کا مزید مشاہدہ یہ تھا کہ"جواب دی ہندگان یعنی جموں کشمیر انتظامیہ، ضلع مجسٹریٹ بانڈی پورہ اور ایس ایچ او حاجن پولیس اسٹیشن کا دعوی تھا کہ نظربند گل ایک تعلیم یافتہ نوجوان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صحافی بھی ہے۔ اس سب کے باوجود سجاد گل نے سماجی رابطہ ویب سائٹ کا استعمال سرکاری اداروں کے خلاف لوگوں کو بھڑکانے کے لیے کیا۔
عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ دسمبر مہینے کی یکم تاریخ کو رائٹ کورٹ نے گل کی درخواست منظور نہیں کی یہ کہتے ہوئے کہ "درخواست میں کوئی وزن نہیں ہے۔دونوں طرف کی دلیلیں سننے کے بعد بینچ نے کہا کہ "ہم نے سجاد گل کی نظربندی کے حوالے سے تمام دستاویز پڑے۔ ان دستاویز سے ظاہر ہوتا ہے کہ نظربند کے خلاف ایک ہی پولیس اسٹیشن (حاجن) میں تین ایف ائی ار درج کیے گئے ہیں۔
پہلے ایف ائی آر میں یہ بتایا گیا ہے کہ نظربند نے ریونیو محکمے کی اینٹی انکریجمنٹ ڈرائیو میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔ دوسرے ایف ائی آر میں یہ بتایا گیا کہ نظر بند نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹس سے غلط اور من گھڑک کہانی بنا کر پیش کی۔ وہیں تیسرے ایف ائی آر میں یہ دعوی کیا ہے گیا ہے کہ نظر بند نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو شائع کیا جس میں لوگ ملک مخالف نعرے بازی کر رہے تھے ایک عسکریت پسند سلیم پرے کے گھر پر۔ ان سب وجوہات کی وجہ سے ان پر پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کیا گیا تھا۔"
بینچ کا مزید کہنا تھا کہ "سجاد گل کی جانب سے جو کاروائیاں کی گئی جواب دہندگان کے مطابق کیا وہ ریاست کی سالمیت اور سکیورٹی کے لیے خطرہ تھی؟ اس پر جانے سے پہلے ہمیں معاملے کے دو اور اہم پہلوں کو دیکھنا ضروری ہے۔ پہلا یہ کہ کیا نظربند کو ان کی ڈیٹینشن کے حوالے سے تمام دستاویز فراہم کیے گئے تھے یا نہیں۔ نظر بند کو صرف پانچ صفحات دیے گئے تھے ان کی نظربندی کے حوالے سے جن میں ایک ڈیٹینشن آرڈر تھا، ایک نوٹس اپ ریٹینشن تھا اور تین صفحات گراؤنڈ اف ڈیٹنشن کے تھے۔
اس کے علاوہ ڈوزیر، ایف آئی آر، گواہوں کے بیانات اور دیگر منسلک دستاویز فراہم نہیں کیے گئے تھے۔ اس وجہ سے نظربند اپنی نمائندگی صحیح ڈنگ سے نہیں کر پایا جو کہ اس کا آئینی حق تھا۔
دوسری چیز یہ کہ نظربند کے خلاف تین ایف آئی آر درج تھے اور 14 جنوری 2022 کو ان پر پی ایس اے عائد کیا گیا۔ اس کی کیا ضرورت تھی۔ اگر ان کو ایک معاملے میں ضمانت مل بھی جاتی تو دو معاملے ابھی بھی ان کے خلاف تھے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ان تین معاملات میں سے انہیں ایک معاملے میں ضمانت مل بھی گئی تھی۔ بینچ نے مزید کہا کہ"نظر بند کے خلاف جو الزامات عائد کیے گئے ہیں ان کی بھی پوری طرح سے وضاحت نہیں ہو پائی ہے۔
مزید پڑھیں:کشمیری صحافی فہد شاہ کو ملی ضمانت
اپنا فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے کہا کہ" نظر بند کے خلاف دائر ڈیٹینشن آرڈر مبہم ہے اور ڈیٹیننگ اتھارٹی نے آرڈر جاری کرنے سے پہلے اپنے ذہن کا صحیح استعمال نہیں کیا ہے۔لہذا عدالت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ضلع میجسٹریٹ بانڈی پورہ کی جانب سے گزشتہ برس جنوری مہینے کی 14 تاریخ کو گل پر عائد کیا گیا ڈیٹنشن آرڈر (25/DMB/PSA) کو کلعدم قرار دیا جاتا ہے۔ اس لیے سجاد گل کو رہا کرنے کا حکم دیتی ہے اگر وہ کسی اور معاملے میں مطلوب نہ ہو۔