کشمیر کی مقامی خواتین صحافی سہمی اور خوف زدہ نظر آ رہی ہیں۔
وادی میں انٹرنیٹ اور مواصلاتی رابطے کی معطلی کے باعث قومی نیوز چینلز اور اخبارات سے منسلک کشمیری خاتون صحافیوں کو رپورٹ فائل کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
قومی اخبار کے ساتھ کام کرنے والی شہانہ بیگم نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'سنہ 2010 اور 2016 میں حالات کشیدہ تھے اور کرفیو نافذ کیا گیا تھا، تاہم اس وقت بھی ایسی پابندیاں عائد نہیں کی گئی تھیں۔'
انہوں نے کہا کہ '2016 میں برہان وانی کی ہلاکت کے بعد وادی میں 6 ماہ تک کرفیو جیسی پابندیاں عائد کی گئی تھیں، تاہم لینڈ لائن اور موبائل فون بند نہیں کیا گیا تھا۔'
شہانہ بیگم نے کہا کہ 'ایک صحافی کے لیے مشکل حالات ہیں اور جنگی صورتحال بنی ہوئی ہے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ مجھے ایک انجان جگہ پر لا کر چھوڑ دیا جہاں پر نہ انٹر نیٹ ہے اور نہ ہی موبائل فون کی سہولیات'۔
انتظامیہ نے انٹرنیٹ، براڈ بینڈ، کیبل ٹیلی ویژن اور تمام مواصلاتی رابطے کو بند کر دیا، تاہم گذشتہ روز کئی علاقوں میں لینڈ لائن سہولیات کو دوبارہ بحال کر دیا ہے۔