ETV Bharat / state

کشمیر: 'بول کہ لب آزاد ہیں تیرے'؟ - کشمیر میں صحافت

مرکزی حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد مقامی صحافیوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

بشکریہ گیٹی
author img

By

Published : Aug 20, 2019, 10:08 PM IST

Updated : Sep 27, 2019, 5:08 PM IST

کشمیر کی مقامی خواتین صحافی سہمی اور خوف زدہ نظر آ رہی ہیں۔
وادی میں انٹرنیٹ اور مواصلاتی رابطے کی معطلی کے باعث قومی نیوز چینلز اور اخبارات سے منسلک کشمیری خاتون صحافیوں کو رپورٹ فائل کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
قومی اخبار کے ساتھ کام کرنے والی شہانہ بیگم نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'سنہ 2010 اور 2016 میں حالات کشیدہ تھے اور کرفیو نافذ کیا گیا تھا، تاہم اس وقت بھی ایسی پابندیاں عائد نہیں کی گئی تھیں۔'
انہوں نے کہا کہ '2016 میں برہان وانی کی ہلاکت کے بعد وادی میں 6 ماہ تک کرفیو جیسی پابندیاں عائد کی گئی تھیں، تاہم لینڈ لائن اور موبائل فون بند نہیں کیا گیا تھا۔'
شہانہ بیگم نے کہا کہ 'ایک صحافی کے لیے مشکل حالات ہیں اور جنگی صورتحال بنی ہوئی ہے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ مجھے ایک انجان جگہ پر لا کر چھوڑ دیا جہاں پر نہ انٹر نیٹ ہے اور نہ ہی موبائل فون کی سہولیات'۔

کشمیر کی خاتون صحافیوں کی کہانی
روضیہ نور نامی دوسری ایک کشمیری صحافی نے کہا کہ 'انٹر نیٹ اور موبائل فون کی سہولیات بند رہنے کی وجہ سے ان کا کسی سے بھی رابطہ نہیں ہو پایا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ہم دور قدیم میں رہ رہے ہیں'۔کشمیری صحافی رفعت کا کہنا ہے کہ 'رپورٹنگ کے وقت انہیں پتھر بازوں اور سکیورٹی فورسز سے کافی ڈر رہتا ہے۔'واضح رہے کہ 5 اگست کو مرکزی حکومت نے دفعہ 370 اور 35 اے کو ختم کر کے جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر اہتمام دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد پُر تشدد واقعات پر قابو پانے کی غرض سے سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں جو آج 16 ویں روز بھی جاری ہیں۔ سخت ترین پابندیوں کے باوجود بھی سرینگر کے کئی مقامات پر مقامی لوگوں نے دفعہ 370 کے خاتمے کے خلاف مظاہرے کیے اور مرکزی حکومت کے خلاف اور کشمیر کے حق میں نعرے بازی کی۔

انتظامیہ نے انٹرنیٹ، براڈ بینڈ، کیبل ٹیلی ویژن اور تمام مواصلاتی رابطے کو بند کر دیا، تاہم گذشتہ روز کئی علاقوں میں لینڈ لائن سہولیات کو دوبارہ بحال کر دیا ہے۔

کشمیر کی مقامی خواتین صحافی سہمی اور خوف زدہ نظر آ رہی ہیں۔
وادی میں انٹرنیٹ اور مواصلاتی رابطے کی معطلی کے باعث قومی نیوز چینلز اور اخبارات سے منسلک کشمیری خاتون صحافیوں کو رپورٹ فائل کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
قومی اخبار کے ساتھ کام کرنے والی شہانہ بیگم نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'سنہ 2010 اور 2016 میں حالات کشیدہ تھے اور کرفیو نافذ کیا گیا تھا، تاہم اس وقت بھی ایسی پابندیاں عائد نہیں کی گئی تھیں۔'
انہوں نے کہا کہ '2016 میں برہان وانی کی ہلاکت کے بعد وادی میں 6 ماہ تک کرفیو جیسی پابندیاں عائد کی گئی تھیں، تاہم لینڈ لائن اور موبائل فون بند نہیں کیا گیا تھا۔'
شہانہ بیگم نے کہا کہ 'ایک صحافی کے لیے مشکل حالات ہیں اور جنگی صورتحال بنی ہوئی ہے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ مجھے ایک انجان جگہ پر لا کر چھوڑ دیا جہاں پر نہ انٹر نیٹ ہے اور نہ ہی موبائل فون کی سہولیات'۔

کشمیر کی خاتون صحافیوں کی کہانی
روضیہ نور نامی دوسری ایک کشمیری صحافی نے کہا کہ 'انٹر نیٹ اور موبائل فون کی سہولیات بند رہنے کی وجہ سے ان کا کسی سے بھی رابطہ نہیں ہو پایا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ہم دور قدیم میں رہ رہے ہیں'۔کشمیری صحافی رفعت کا کہنا ہے کہ 'رپورٹنگ کے وقت انہیں پتھر بازوں اور سکیورٹی فورسز سے کافی ڈر رہتا ہے۔'واضح رہے کہ 5 اگست کو مرکزی حکومت نے دفعہ 370 اور 35 اے کو ختم کر کے جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر اہتمام دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد پُر تشدد واقعات پر قابو پانے کی غرض سے سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں جو آج 16 ویں روز بھی جاری ہیں۔ سخت ترین پابندیوں کے باوجود بھی سرینگر کے کئی مقامات پر مقامی لوگوں نے دفعہ 370 کے خاتمے کے خلاف مظاہرے کیے اور مرکزی حکومت کے خلاف اور کشمیر کے حق میں نعرے بازی کی۔

انتظامیہ نے انٹرنیٹ، براڈ بینڈ، کیبل ٹیلی ویژن اور تمام مواصلاتی رابطے کو بند کر دیا، تاہم گذشتہ روز کئی علاقوں میں لینڈ لائن سہولیات کو دوبارہ بحال کر دیا ہے۔

Intro:Body:Conclusion:
Last Updated : Sep 27, 2019, 5:08 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.