وادی کشمیر کے شہر و دیہات سے ان دنوں شوشل میڈیا پر ایسی تصاویر اور ویڈیوز دیکھنے کو کو مل رہے ہیں جن میں مختلف علاقوں کے اساتذہ رضاکارانہ طور مقامی بچوں کو کھلے میدان میں پڑھاتے ہوئے دیکھے جارہے ہیں ۔کمیونٹی اسکولنگ کی جانب اس طرح کے رجحان کو لاک ڈاون کی صورتحال میں انتہائی اہم اور نیک شگون کے طور مانا جارہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب وادی کشمیر کے طالب علم کم وبیش ایک سال سے اپنے گھروں کے اندر ہی بھیٹے ہوئے ہیں اور اسکولی عمل سے دور ہیں ۔
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد ہی مارچ کے اوآخر میں پورے ملک کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیر میں بھی تمام تعلیمی اداروں کو بند کر دیا گیا۔ لاک ڈاون میں کسی حد تک نرمی برتی تو گئی ہے۔ تاہم سرکاری اور نجی اسکول ابھی بھی بند ہیں۔ ایسے میں بچوں کی تعلیم کافی حد تک متاثر ہوئی۔ لاک ڈوان کے دوران اگرچہ سرکار نے بچوں کی تعلیم کو جاری رکھنے کے سلسلے میں آن لائن کلاسز کا اہتمام کیاہے، لیکن یہ سلسلہ کئی وجوہات کی بنا پر موثر ثابت نہیں ہورہا ہے۔
کمیونیٹی اسکولنگ سے جڑے پڑھے لکھے نوجوان اور اساتذہ حضرات شباشی اور حوصلہ افزائی کے مستحق ہیں جو سوشل ڈسٹنسنگ کا خیال رکھتے ہوئےکمیونٹی اسکولنگ کا اہتمام کر کے بچوں کو اس طرح تعلیم کے نور سے منور کرنے میں اپنا فرض نبھا رہے ہیں ۔
ہمارے سماج میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہیں جن ہیں یہ احساس ہے کہ تعلیم سے دوری مستقبل کے لیے ایک بھیانک خواب کے مانند ثابت ہوسکتی ہے۔
کورونا وائرس کے بڑھتے معاملات کے دوران اسکول نہ کھلنے کے پیش نظر سی بی ایس ای نے تعلیمی سال 2021۔2020کے لیے 9ویں اور بارویں جماعت کا نصاب 30فیصد کم کرنا کا اعلان کیا ہے۔
لاک ڈوان کے دوران اسکول بند رہنے سے بچے غلط صحبت میں بھی پڑسکتے ہیں ایسے میں ضروری کہ دیگر پڑے لکھے نوجوان بھی اسی طرح رضاکارانہ آگے آکر مقامی بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کے لیے اپنا بھر پور تعاون پیش کریں۔