بانہال: جموں و کشمیر کے بانہال میں جوڈیشل مجسٹریٹ مجسٹریٹ فرسٹ کلاس نے 17 سال بعد فوجی جوان کے 'قتل' کی مزید تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ دراصل عدالت نے فوجی کیمپ کے اندر کانسٹیبل یوراج اتم راؤ کے پراسرار "قتل" کے معاملے کی تحقیقات کو دوبارہ کھولنے کا حکم دیا ہے۔ سابقہ تحقیقات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے جج منموہن کمار نے پولیس کو مزید تحقیقات کرنے اور تین ماہ کے اندر تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی۔
کئی سالوں سے زیر التوا کلوزر رپورٹ 18 ستمبر 2021 کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ تاہم، عدالت نے تحقیقات میں تضاد پایا، جس سے پچھلی کوششوں کی تکمیل اور اخلاص پر شکوک پیدا ہوئے۔کلوزر رپورٹ کے مطابق 19 مئی 2006 کو صبح تقریباً 3:00 بجے، 17 RR کے ایڈجوٹنٹ نے بانہال پولیس اسٹیشن کو اطلاع دی کہ کانسٹیبل یوراج اتم راؤ کو 17 RR کیمپ گنڈ ٹیتھر میں ڈیوٹی کے دوران گولی لگنے سے شدید چوٹ آئی ہے۔
انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کسی نامعلوم افسر یا افسران نے گولی چلائی تھی جس کے نتیجے میں کانسٹیبل یوراج اتم راؤ کی موت ہوگئی تھی۔ تفتیش سے معلوم ہوا کہ سنٹری پوسٹ میں خون کے کوئی دھبے نہیں تھے تاہم چھت میں گولیوں کے چار سوراخ پائے گئے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گولیاں اندر سے چلائی گئی تھیں۔ لاش ایک گیسٹ ہاؤس سے ملی جب کہ قتل میں استعمال ہونے والا اسلحہ دوسرے کمرے سے ملا۔ عینی شاہدین نے گولیوں کی آوازیں سننے کی گواہی دی، لیکن بہت سے لوگوں نے واقعے سے لاعلمی کا اظہار کیا۔
اس وقت بانہال کے علاقے میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی کے پیش نظر تحقیقات میں عسکریت پسندوں کے ملوث ہونے کے امکان پر بھی غور کیا گیا۔ کیس کے تفتیشی افسر نے آخر کار یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ملزم کی شناخت ممکن نہیں ہے کیونکہ واقعے کو دس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ جج نے نوٹ کیا کہ تفتیش میں تضادات ہیں کیونکہ ایک موقع پر آئی او نے مشاہدہ کیا تھا کہ کچھ نامعلوم افسران نے جوان کو قتل کیا تھا اور آئی او نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ موت عسکریت پسندوں کی کارروائی میں بھی ہو سکتی ہے۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ تفتیشی افسر نے ایسے کئی شواہد اکٹھے نہیں کیے ہیں کہ اس رات فوجی کیمپ پر کوئی حملہ ہوا تھا۔
عدالت نے نوٹ کیا کہ ایف ایس ایل رپورٹ نے خود اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جائے وقوعہ سے ملنے والے کارتوس کانسٹیبل یوراج اتم راؤ کے تھے۔ ملزمان کی شناخت یا ہتھیار سے فنگر پرنٹس حاصل کرنے میں ناکامی پر تفتیشی افسران کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اہلیت کی کمی اور کسی کو بچانے کی ممکنہ کوشش بتاتے ہوئے عدالت نے مشاہدہ کیا کہ "تفتیشی افسر نے عذر پیش کیا کہ ملزم کا سراغ لگانا یا اس کی شناخت کرنا ممکن نہیں ہے، کیونکہ متوفی سپاہی یوراج اتم راؤ کیمپ میں اکیلے نہیں تھے۔ اس وقت ڈیوٹی پر موجود افسران کے ساتھ بہت سے فوجی اہلکار بھی موجود تھے۔ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے۔ ایک فوجی جوان کو آرمی کیمپ کے اندر اس کے سروس ہتھیار سے قتل کیا گیا لیکن تفتیشی افسران ملزم کا سراغ لگانے سے قاصر ہیں۔ پولیس افسران کی جانب سے کوئی ثبوت اکٹھا نہیں کیا گیا جس سے معلوم ہو کہ متوفی کی موت کیسے ہوئی۔"
ان تضادات اور حقیقی حقائق پر مبنی انصاف کی ضرورت کی روشنی میں عدالت نے سپریم کورٹ میں حسن بھائی ولی بھائی قراشی بمقابلہ ریاست گجرات (2004) کے مقدمے کا حوالہ دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ اگر عدالت ضروری سمجھے تو مزید تحقیقات کا حکم دیا جا سکتا ہے۔ مزید تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے عدالت نے ہدایت دی کہ اس کے حکم کی ایک کاپی ایس پی رامبن کو بھیجی جائے تاکہ کیس کی تحقیقات کی نگرانی کی جا سکے۔