جموں و کشمیر پولیس نے آن لائن میگزین'دا کشمیر والا' کے مدیر فہد شاہ کو سرینگر کے نواکدل علاقے میں ہوئے تصادم کی کوریج کے تعلق سے پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا ہے۔ اس سے قبل بھی رواں برس 20 مئی کو ان سے چار گھنٹے تک پوچھ گچھ کی گئی تھی۔
گزشتہ شب پولیس کی جانب سے شاہ کو طلب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ "سری نگر کے نواکدل علاقے میں 19 مئی کو ہوئے تصادم میں دو عسکریت پسند ہلاک ہوئے تھے اور کچھ مکانات کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ تاہم اس تعلق سے 'دا کشمیر والا' کی جانب سے کی گئی کوریج اعتراض آمیز تھی۔ اور ان پر انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 147، 307،109،501،505 الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ اسی لئے ان کو سری نگر کے صفاکدل پولیس اسٹیشن میں جمعہ کے روز طلب کیا گیا جہاں ان سے تقریباً دو گھنٹے تک پوچھ تاچھ کی گئی۔'
فہد شاہ نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا صفا کدل تھانے میں ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کی جانب سے پوچھ تاچھ کی گئی اور وہاں پر پولیس کا کوئی اعلیٰ پولیس افسر موجود نہیں تھا۔
فہد سے ان کی تعلیم، رہائش اور ذاتی زندگی کے بارے میں سوالات کئے گئے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ انہیں ائندہ بھی پوچھ تاچھ کے لئے طلب کیا جا سکتا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب 'دا کشمیر والا' کے ایڈیٹر کو پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا گیا ہو۔ اس سے قبل 20 مئی کو انہیں پولیس کے سینئر افسران کی جانب سے بلائے جانے کے بعد چار گھنٹے تک پوچھ گچھ کی گئی۔
جہاں پولیس کا دعویٰ تھا کہ 'دا کشمیر والا' کی کوریج پولیس کو غلط روشنی میں پیش کرنے کی کوشش ہے وہیں شاہ کا کہنا تھا کہ ان کی میگزین کی جانب سے کی گئی کوریج حقائق، عینی شاہدین کے اکاؤنٹس اور پولیس کے بیان پر مشتمل ہے۔
گزشتہ روز دوبارہ طلب کیے جانے کے بعد 'دا کشمیر والا' نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ "انتظامیہ صحافیوں کو ڈرانے اور خاموش کرنے کے لیے یہ سب کر رہی ہے۔ سری نگر میں واقع ایک آزاد نیوز ادارہ کی حیثیت سے ہم سرکاری اشتہارات پر انحصار نہیں کرتے ہیں۔ ہماری پیشہ وارانہ صحافیوں پر مشتمل چھوٹی سی ٹیم زمینی حقائق منظر عام پر لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس دوران ہر اسٹوری کا ہر پہلو دیکھا جاتا ہے اور اسٹوری میں بیان کیا جاتا ہے۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ "ہم نے انتظامیہ کو کئی بار آگاہ کیا ہے کہ صحافت پر حملہ کرنے سے مشکل آسان نہیں ہوگی۔ تاہم گزشتہ مہینوں میں صحافت کی آزادی پر قدغن لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انتظامیہ ہمارے سوالوں کے جواب دینے سے پرہیز کر رہی ہے جس کے باوجود بھی ہم ہر اسٹوری کے لیے آفیشل ورژن حاصل کرنے کی پوری پوری کوشش کرتے ہیں۔"
یہ بھی پڑھیں: عالمی پریس فریڈم ڈے: 'کشمیر میں صحافت دو دھاری تلوار'
واضح رہے گزشتہ دنوں کشمیر میں پولیس نے دو صحافیوں- گوہر گیلانی اور خاتون صحافی مسرت زہرہ کے خلف مقدمے درج کئے جبکہ 'دا ہندو' کے جموں و کشمیر کے نمایندے پیرزادہ عاشق کو ایک خبر رپورٹ کرنے پر پولیس نے پوچھ تاچ کی اور رپورٹ پر مقدمہ درج کیا-
اس سے قبل گزشتہ برس پانچ اگست کے بعد وادی کے کئ صحافیوں کو پولیس نے رپورٹ شایع کرنے پر پولیس تھانون بلا کر پوچھ تاچھ کی، جن میں اوٹلوک میگزین کے سینئر صحافی نصیر گنائی، دی ہندو کے پیرزادہ عاشق، دی انڈین ایکسپریس کے بشارت مسعود اور ایکنامک ٹایمز کے حکیم عرفان قابل ذکر ہے- وہیں اسی دوران نو عمر صحافی اذان جاوید اور انیس زرگر کے ساتھ پولیس نے دن دھاڑے شہر خاص میں رپورٹنگ کے دوران مار پیٹ کی- لیکن یہ واقعات کشمیر کی صحافت میں نئے نہیں ہیں- سنہ 1990 سے ہی صحافیوں پر عسکریت پسندوں یا سیکورٹی اہلکاروں کی طرف سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے-سنہ 2008 سے کشمیر میں عوامی احتجاجوں کا ایک نیا باب شروع ہوا، اور اسی کے ساتھ کشمیر میں درجنوں ایسے واقعات پیش آیے جب صحافیوں کو ہراساں کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: گوہر گیلانی کے خلاف ایف آئی آر درج