مارچ کے شرکا کو جسکول سے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ مقامی انتظامیہ نے سڑک کے بیچ میں دو کنٹینرز حائل کردئے ہیں اور کسی کو آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ سینکڑوں افراد نے ساری رات سڑک پر گزاری۔ وہ بضد ہیں کہ مارک کو ایل او سی تک جاری رکھیں گے۔
حکام نے مارچ کے منتظمین سے اپیل کی ہے کہ وہ واپسی کا سفر شروع کریں کیونکہ ایل او سی تک مارچ کرنا سیکیورٹی نقطۂ نظر سے صحیح نہیں ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بھی اس مارچ کی مخالفت کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے ایل او سی پار کرنا ’بھارتی بیانیے کے ہاتھوں میں کھیلنا‘ ہو گا۔
اس مارچ کی قیادت لبریشن فرنٹ کے دو رہنما توقیر گیلانی اور رفیق احمد ڈار کررہے ہیں۔ رفیق ڈار کا تعلق سرینگر سے ہے اور وہ ماضی میں جے کے ایل ایف کے چیف کمانڈر رہ چکے ہیں۔ جے کے ایل ایف نے کشمیر میں عسکریت متعارف کی لیکن 1994 میں اس تنظیم نے عسکریت کا راستہ ترک کرکے سیاسی محاز پر سرگرمیاں شروع کیں۔
فرنٹ کے سربراہ محمد یاسین ملک مارچ سے زیر حراست ہیں۔ انکے خلاف منی لانڈرنگ کے علاوہ ٹاڈا عدالت میں بھارتی فضائیہ کے چار اہلکاروں کو ہلاک کئے جانے کے مقدموں پر کارروائی جاری ہے۔
لبریشن فرنٹ جموں و کشمیر کو ایک خودمختار ملک بنانا چاہتی ہے۔
فرنٹ نے اس مارچ کا اہتمام کشمیر کے عام لوگوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے طور کیا ہے۔