جموں و کشمیر کی عدالت عالیہ نے گذشتہ روز ایک سماعت کے دوران محسوس کیا کہ احتیاطی تحویل میں لے جانے کے احکامات جاری کرتے وقت انتظامیہ تکنیکی تقاضوں پر عمل نہیں کر رہا ہے اس وجہ سے ان احکامات کو کلعدم کرنا پڑ رہا ہے۔
گزشتہ روز جسٹس راجیش بنڈل اور جسٹس رجنیش اوسوال پر مبنی عدالت عالیہ کے ڈویژن بینچ نے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت زیر حراست افراد کو رہا کرنے کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے 'ہمیں محسوس ہوا ہے کہ انتظامیہ احتیاطی تحویل کے احکامات جاری تو کرتے ہیں لیکن انہیں اس قانون کے بارے میں یا تو علم ہی نہیں یا پھر باقاعدگی سے اپنا کام انجام نہیں دیا جا رہا ہے'۔
قابل ذکر ہے کہ بینچ نے اپنے یہ احکامات کلگام کے رہنے والے سرتاج احمد کی ارضی کے دوران جاری کیے ہیں۔ علی کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت سنہ 2018 کے نومبر ماہ کی 28 تاریخ کو زیر حراست میں لیا گیا تھا۔
بیچ کا مزید کہنا تھا 'ہمیں بہت افسوس ہوتا ہے، جب ہم دیکھتے ہیں کہ انتظامیہ کی جانب سے حفاظتی اور ملک کی سالمیت کو خطرہ بتاتے ہوئے افراد کو زیر است لیا جا تا ہے۔ تاہم وجوہات ان دعوں کو ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں ہوتی۔ جس وجہ سے ان احکامات کو کالعدم کرنا پڑتا ہے کیوں کہ تکنیکی تقاضوں پر عمل نہیں کیا گیا ہوتا'۔
عدالت نے انتظامیہ کی نقطہ چینی کرتے ہوئے کہا 'یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جس بھی افراد کو زیر حراست لیا گیا ہو اس کو اس تعلق سے کوئی بھی دستاویزات فراہم نہیں کیے جاتے اور اسے اپنا موقف رکھنے کا موقع بھی نہیں دیا جاتا، یہاں تک کہ کس بنیاد پر اس کو زیر حراست میں لیا جا رہا ہے اس کی وجہ بھی نہیں بتائی جاتی۔ یہ بہت افسوس ناک بات ہے'۔
یہ بھی پڑھیے
جموں و کشمیر بار ایسوسی ایشن انتخابات 5 اکتوبر کو ہوں گے
انتظامیہ کو قانون کے حوالے سے تربیت دینے کی سفارش کرتے ہوئے بینچ کا کہنا تھا 'یہ صحیح وقت ہے، جب انتظامیہ کو قانون کے متعلق تربیت دی جائے تاکہ ایسے معاملات کو تکنیکی بنیاد پر عدالت میں کالعدم نہ قرار دیا جائے'۔
عدالت نے اپنے فرمان کی نقل جموں وکشمیر کے چیف سکریٹری، کمشنر سیکرٹری ہوم ڈیپارٹمنٹ اور لا سیکرٹری کو بیجھنے کو کہا ہے تاکہ انتظامیہ ان احکامات پر سختی سے عمل کرے اور اگر خلاف ورزی ہوتی ہے تو انتظامیہ کے افسران پر کاروائی کی جا سکتی ہے۔