سرینگر : منشا بشیر 8 برس کی عمر سے ہی ٹائیکوانڈو کھیل رہی ہے۔ اگرچہ پہلے پہل منشا نے ٹائیکوانڈو کو مشغلے کے طور پر لیا تھا تاہم آج کی تاریخ میں ٹائیکوانڈو اس کے لیے نہ صرف جنون ہے بلکہ یہ اسی کھیل میں اپنے مستقبل کو تلاش کررہی ہیں اور اولمپکس میں ملک کی نمائندگی کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔
سرینگر کی رہنے والی 24 سالہ ٹائیکوانڈو کھلاڑی منشا بشیر نے اب تک کئی ریاستی، قومی اور بین الاقوامی سطح کے کئی مقابلوں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر کے کئی تمغے اور اعزازات اپنے نام کیے ہیں۔بین الاقوامی سطح پر اس خاتون کھلاڑی کو تین مرتبہ ملک کی نمائندگی کرنے کا موقعہ ملا اور اس دوران ایک گولڈ اور ایک کانسی کا تمغہ اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔
منشا کہتی ہے کہ بچن میں مجھے کسی اور گیم میں دلچسپی تھی لیکن والدہ کے اسرار پر مارشل آرٹ کو ہی چننا پڑا۔ کھیلتے کھیلتے میری بھی اس گیم کی جانب دلچسپی بڑھتی گئی اور آج ٹائیکوانڈو ہی اپنا مستقبل بن چکا ہے۔ اسپورٹس اتھارٹی آف انڈیا کی جانب سے منشا این آئی ایس بھی مکمل کر چکی ہے۔ایسے یہ کشمیر کی پہلی خاتون ٹائیکوانڈو کھلاڑی ہے جو کہ ایم آئی ایس سرٹیفائیڈ بھی ہے۔
گریجویشن مکمل کر چکی یہ ہونہار کھلاڑی اپنی مزید پڑھائی کے ساتھ ساتھ وقت کا بہتر تعین کر کے نہ صرف اپنے کوچ کی نگرانی میں سخت پریکٹس بھی برابر جاری رکھی ہوئی ہے۔بلکہ یہ رضاکارنہ طور انڈور اسٹریم میں بچوں کو کئی برسوں سے ٹائیکوانڈو سیکھا رہی ہے۔ اب تک انہوں نے تقریباً 200 لڑکیوں کو مارشل آرٹ کی تربیت دی ہے اور کئی اسکولوں میں طلباء کو سیلف ڈیفنس کی ٹریننگ بھی دے چکی ہے۔
منشا کا کہنا ہے کہ میں چاہتی ہوں کہ زیادہ سے زیادہ لڑکیاں اس کھیل کی طرف مائل ہوجائے ۔انہوں نے کہا کہ دیگر ریاستوں کی بہ نسبت کشمیر میں لڑکیاں کھیلوں کی جانب کم دلچسپی دکھاتی ہیں ۔میرا ماننا ہے کہ آج کل کے دور میں جتنی تعلیم ضروری ہے اتنا ہی کھیل کود بھی ۔
یہ بھی پڑھیں: موسم سرما کی تنہائی کے بیچ گریز کی وادی تلیل میں سنو کرکٹ کا آغاز - SNOW CRICKET IN GUREZ
اس ہونہار کھیلاڑی کو ٹائیکوانڈو کھیل میں آگے بڑھنے اور اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لیے گھر والوں کا برابر تعاون حاصل ہے۔منشا ورلڈ رینکنگ چیمپئن شپ کے لیے فروری میں دبئی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ چیمپئن شپ میرے لیے کافی اہم ہے اور میں اس وقت اس کے لیے کڑی محنت کر رہی ہوں تاکہ میں بہتر کاردگی کا مظاہرہ کرکے اولمپکس میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوجاؤ۔تاہم منشا کہتی ہیں بھارت سے اولمپکس کے لیے زیادہ ٹائیکوانڈو کھلاڑی منتخب نہیں پاتے ہیں ۔جس کی وجہ انفراسٹرکچر اور کوچز کی کمی کے علاوہ کھلاڑیوں کے لیے دیگر سہولیات کی عدم دستیابی ہے ۔
کشمیر میں اب لڑکیاں غیر روایتی کھیلوں کی طرف نہ صرف مائل ہورہی ہیں بلکہ ان کھیلوں میں بھی اپنی بہترین کار کردگی کا مظاہرہ کر کے ملک و قوم کا نام روشن کررہی ہیں۔