کشمیر پریس کلب کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق پولیس نے معروف انگریزی اخبار 'دا ہندو' کے نمائندے پیر ذادہ عاشق کو پوچھ تاچھ کے لیے سمن جاری کیا۔
پریس کلب کے بیان کے مطابق پیر زادہ نے فون پر بتایا کہ انہیں جنوبی کشمیر کے ایک پولیس اسٹیشن بلایا گیا جہاں ان سے پوچھ تاچھ کی گئی، جس کے بعد انہیں رہا کردیا گیا۔
گزشتہ روز سرینگر میں سائبر پولیس نے معروف خاتون فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرا کے خلاف سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک پر 'اینٹی نیشنل پوسٹس اور تصویریں' اپ لوڈ کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کیا ہے۔
سائبر پولیس سیل سرینگر کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز کے مطابق مسرت زہرا کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام والے قانون سے متعلق ترمیم شدہ ایکٹ درج کرکے تحقیقات شروع کردی گئی ہے۔
پریس ریلیز میں کہا گیا ہے: 'سائبر پولیس سٹیشن کو قابل اعتماد ذرائع سے اطلاع ملی کہ فیس بک صارف مسرت زہرا نوجوانوں کو گمراہ کرنے اور امن و امان کے خلاف جرائم کو فروغ دینے کی مجرمانہ نیت سے ملک مخالف اپلوڈ کرتی ہیں۔ اس فیس بک صارف کے بارے میں یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایسی تصویریں اپلوڈ کرتی ہیں اور عوام کو امن وامان بگاڑنے پر اکسا سکتی ہیں۔'
وہیں زہرا نے ایک فون انٹرویو پر سی پی جے کو بتایا کہ انہیں اپنے خلاف باقاعدہ شکایت کی کاپی نہیں موصول ہوئی ہے۔
نیو یارک میں مقیم کیمٹی ٹو پرٹیکٹ جرنلسٹس کی سینیئر ریسریچر، عالیہ افتخار نے کہا ، "مسرت زہرہ اور پیرزادہ عاشق کو جموں و کشمیر میں ہراساں کیے جانے اور دھمکیوں کا سامنا کرنے کے بغیر آزادانہ طور پر رپورٹنگ کرنے دینی چاہئے۔"
انہوں نے کہا کہ پولیس کو ان دونوں صحافیوں سے متعلق کی جارہی کاروائی کو واپس لینا چاہیے۔
پولیس نے 20 اپریل کو ایک پریس ریلیز جاری کیا جس کے مطابق پولیس نے پیرزادہ کی جانب سے رپورٹ کی گئی ایک مبینہ فرضی نیوز کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہے۔