جموں وکشمیر کی عدالت عالیہ نے انتظامیہ کو ایک مفاد عامہ کے تحت دائر عرضی کے حوالے سے نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا ہے کی ہندی کو یا تو مرکزی زیر انتظام علاقے کی سرکاری زبان قرار دی جائے یا پھر یہاں کی زبانوں میں شامل کی جائے۔
گزشتہ روز چیف جسٹس گیتا متل اور جسٹس سنجے دھر پر مشتمل ڈویژن بینچ نے وکیل پریانسو شرما اور آدتیہ شرما کی جانب سے دائر کی گئی عرضی پر سماعت کے بعد مرکزی زیر انتظام جموں و کشمیر کی انتظامیہ کو نوٹس جاری کیا۔
نوٹس میں عدالت نے کمشنر سیکرٹری جنرل سٹور ڈیپارٹمنٹ، کمشنر سیکرٹری قانون، پرنسپل سیکریٹری ہوم ڈیپارٹمنٹ اور فائنانشل کمشنر ریونیو سے جواب طلب کیا ہے۔
سماعت کے دوران عرضی دائر کرنے والے وکیلوں نے دعویٰ کیا کہ ’’جموں و کشمیر میں جموں کے صوبے میں ڈوگری اور ہندی عام زبان ہے اور یہاں کے سرکاری اور غیر سرکاری اسکولوں میں دسویں جماعت تک ہندی پڑھنا لازمی ہے جبکہ طلباء اردو کو بطور آپشنل سبجیکٹ پڑھ سکتے ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’جموں صوبے کے افراد کے ساتھ ساتھ ہمیشہ سوتیلی ماں کا سلوک ہوا ہے۔ ان پر زبردستی اردو تھوپی گئی۔ ریونیو اور پولیس ریکارڈ سب اردو میں ہے تاہم یہاں کی عوام کو اردو سمجھ نہیں آتی جس وجہ سے اکثر غلط فہمی کا شکار ہو کر ہمیں خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔‘‘
ہندی کو سرکاری زبان قرار دینے کے تعلق سے عرضی دائر کرنے والے وکیلوں کا دعوی ہے کہ ’’عدالت عالیہ میں بھی تمام عرضی اردو میں داخل کرنی پڑتی ہے جو عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کرتی ہے۔ اس لئے عدالت سے گزارش ہے کہ وہ انتظامیہ کو جموں و کشمیر تنظیم نو قانون 2019 کی دفعہ 47 کے تحت ہندی کو سرکاری زبان قرار دینے کی ہدایت جاری کرے۔‘‘