ETV Bharat / state

کشمیر: بی جے پی کے رہنماوں اور کارکنان میں تشویش

وادی کشمیر میں گزشتہ دنوں بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما کے قتل، سینئر رہنماوں کی کورونا رپورٹ مثبت آنے اور بعض رہنماوں کے استعفے کی وجہ سے پارٹی رہنماوں و کارکنان میں خوف و ہراس پایا جا رہا ہے۔

author img

By

Published : Jul 15, 2020, 3:53 PM IST

کشمیر: بی جے پی کارکنان و لیڈران خوف و ہراس کا شکار
کشمیر: بی جے پی کارکنان و لیڈران خوف و ہراس کا شکار

گزشتہ ہفتے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے نوجوان لیڈر شیخ وسیم باری کی ہلاکت، جموں وکشمیر بی جے پی کے صدر رویندر رینہ کا عالمی وبا کورونا وائرس سے مثبت پایا جانا اور آج شمالی کشمیر میں ایک بی جے پی لیڈر کا اغوا ہونے سے مرکزی زیر انتظام علاقے میں پارٹی سے منسلک لیڈران اور کارکنان میں خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی ہے۔

ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے جنوبی کشمیر سے تعلق رکھنے والے پارٹی کارکن کا کہنا ہے کہ ’’ہم اپنے مستقبل کو لے کر کافی پریشان ہیں۔ پارٹی کے لیڈر اور کارکنان میں خوف پیدا کرنے کے لیے نامعلوم افراد کی جانب سے ایسی کارروائیاں انجام دی جا رہی ہیں۔ سیکورٹی فورسز بھی ہماری حفاظت کے لئے کوئی خاص اقدامات نہیں اٹھا رہی۔ ایسے میں ہمارے پاس کون سا راستہ باقی رہتا ہے؟‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’پارٹی کے کچھ لیڈران نے استعفیٰ دے دیا ہے اور کچھ دینے کی تیاری میں ہیں۔‘‘

جب اس تعلق سے ای ٹی وی بھارت نے انتظامیہ سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہر کسی کو سیکورٹی فراہم کرنا آسان نہیں ہے۔

پولیس کے ایک سینئر آفیسر کا کہنا تھا کہ ’’کشمیر ایک ایسی جگہ ہے جہاں سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ جڑے افراد پر مختلف اقسام کے دباؤ اور خطرات ہمیشہ منڈلاتے رہتے ہیں۔ ہم ذاتی طور پر ہر کسی کو سیکورٹی فراہم نہیں کر سکتے۔ کچھ لیڈران نے سیکورٹی لینے سے انکار بھی کیا ہے۔ تاہم جو لوگ ہم سے سکیورٹی کے لیے رجوع کرتے ہیں انہیں وقت رہتے مہیا کی جاتی ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’پولیس کی بھی اپنی کچھ مشکلات ہیں۔ اس وقت ہمارے پاس 90000 اہلکار ہیں۔ اور آپ یقین مانیں کی یہ سب وادی کے تمام سیاسی کارکنان کو سکیورٹی فراہم کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ اس وقت ہم سابق وزراء، کارکنان اور صحافیوں کو بھی سکیورٹی فراہم کرتے ہیں۔ جو ہم سے رجوع کرتا ہے اسے سکیورٹی میسر کی جاتی ہے، تاہم سب کو سیکورٹی فراہم کرنا بہت مشکل ہے۔‘‘

وہیں شمالی کشمیر کے رہنے والے بی جے پی کے ایک کارکن کا کہنا ہے کہ ’’پولیس سے سکیورٹی مانگنے سے کیا فائدہ؟ وسیم، ان کے بھائی اور والد کی ہلاکت یہ ثابت کرتی ہے کہ سکیورٹی ہو یا نہ ہو ہماری جان خطرے میں ہے۔ وسیم کی حفاظت کے لیے دس پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔ اس کے باوجود بھی عسکریت پسند انہیں ہلاک کرنے میں کامیاب ہوگئے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا: ’’ آج بارہمولہ سے ہمارے ایک اور ساتھی اغوا کیے گئے۔ پولیس انہیں ڈھونڈنے میں لگی ہوئی ہے۔ ایسا 2018 میں بھی ہوا تھا جب ہمارے ایک ساتھی کو پہلے اغوا کیا گیا اور اس کے بعد ان کی لاش برآمد کی گئی۔ انتظامیہ اور پارٹی کی جانب سے ہمیں ہر بار بھروسہ دلایا جا رہا ہے کہ ٹھوس اقدامات کیے جا رہے ہیں تاہم حقیقت کچھ اور ہی بیان کرتی ہے۔‘‘

وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام کے رہنے والے پارٹی کے کارکن نے دعویٰ کیا کہ ’’جب بھی قومی سطح کا کوئی لیڈر وادی کشمیر کے دورے پر آتا ہے تو ہم پر لازمی ہوتا ہے کہ ان کے استقبال کے لیے سرینگر جائیں۔ اس وقت عالمی وبا کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔ وائرس کے خدشات کے باوجود ہم پر حکم جاری کیا گیا کہ ہمیں رویندر رینا، جتندر سنگھ اور رام مادھو کا استقبال کرنے کے لیے پارٹی کے مرکزی دفتر جانا ہے۔ دفتر میں احتیاطی تدابیر عملائے نہیں گئے۔ گزشتہ روز رینا کورونا وائرس سے مثبت پائے گئے اور ہمیں قرنطینہ میں جانے کو کہا گیا، ہماری کیا غلطی ہے؟‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’دفعہ 370 اور 35 اے کے خاتمہ کے بعد ہم لوگوں کے پاس گئے اور پارٹی کی جانب سے جاری کیے جا رہے فرمان پر عمل کیا۔ لیکن پارٹی ہمارے ساتھ انصاف نہیں کر پا رہی۔ میرے علاوہ دیگر کارکنان بھی پارٹی سے دوری اختیار کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔‘‘

قابل ذکر ہے کہ گزشتہ ہفتے بھارتیہ جنتا یوا مورچہ کے بارہمولہ یونٹ کے صدر معروف بٹ نے پارٹی سے استعفیٰ دے دیا۔ سماجی رابطہ کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنا بیان جاری کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’میں بھارتیہ جنتا یوا مورچہ کی رکنیت اور تمام عہدوں سے استعفیٰ دیتا ہوں۔ میں پارٹی کے لیڈران کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے مجھے ایسا موقع فراہم کیا۔‘‘

بٹ کے بعد پارٹی کی کپوارہ یونٹ کے نائب صدر آصف احمد بھی منگل کے روز مستعفی ہوئے۔ استعفیٰ کی وجہ ذاتی بتاتے ہوئے احمد کا کہنا تھا کہ ’’ماحول کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ ہماری کوئی کچھ سن ہی نہیں رہا۔ علاقوں کی ترقی کے نام پر مذاق ہو رہا ہے۔‘‘

جموں و کشمیر بی جے پی کے دیگر لیڈران کے مطابق استعفیٰ دینے والے افراد اپنے ذاتی مفاد کے لئے پارٹی میں شامل ہوئے تھے۔

پارٹی کے سینئر لیڈر اور جنرل سیکریٹری اشوک کول کا کہنا ہے کہ ’’کچھ لوگ جو پارٹی سے استعفیٰ دے رہے ہیں وہ دیگر جماعتوں سے بی جے پی میں آئے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے ذاتی مفاد پورے کیے جائیں۔ اس تعلق سے وہ انتظامیہ پر دباؤ بھی بنا رہے تھے۔ تاہم انتظامیہ کے افسران نے عوام کے حق میں کام کرنا جاری رکھا۔ پارٹی کا ماحول ٹھیک ہے۔‘‘

وہیں پارٹی کے ترجمان منظور بٹ کا کہنا ہے کہ ’’بی جے پی ایک کھمبے کی طرح ہے۔ شکوے، شکایت ہوتی رہتی ہے اور سب مل کر اس کا حل بھی نکالتے ہیں۔ مانتا ہوں کہ ہمارے کارکنان اس وقت خوف زدہ ہیں۔ انہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں پارٹی کی جانب سے بہتر اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔‘‘

گزشتہ ہفتے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے نوجوان لیڈر شیخ وسیم باری کی ہلاکت، جموں وکشمیر بی جے پی کے صدر رویندر رینہ کا عالمی وبا کورونا وائرس سے مثبت پایا جانا اور آج شمالی کشمیر میں ایک بی جے پی لیڈر کا اغوا ہونے سے مرکزی زیر انتظام علاقے میں پارٹی سے منسلک لیڈران اور کارکنان میں خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی ہے۔

ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے جنوبی کشمیر سے تعلق رکھنے والے پارٹی کارکن کا کہنا ہے کہ ’’ہم اپنے مستقبل کو لے کر کافی پریشان ہیں۔ پارٹی کے لیڈر اور کارکنان میں خوف پیدا کرنے کے لیے نامعلوم افراد کی جانب سے ایسی کارروائیاں انجام دی جا رہی ہیں۔ سیکورٹی فورسز بھی ہماری حفاظت کے لئے کوئی خاص اقدامات نہیں اٹھا رہی۔ ایسے میں ہمارے پاس کون سا راستہ باقی رہتا ہے؟‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’پارٹی کے کچھ لیڈران نے استعفیٰ دے دیا ہے اور کچھ دینے کی تیاری میں ہیں۔‘‘

جب اس تعلق سے ای ٹی وی بھارت نے انتظامیہ سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہر کسی کو سیکورٹی فراہم کرنا آسان نہیں ہے۔

پولیس کے ایک سینئر آفیسر کا کہنا تھا کہ ’’کشمیر ایک ایسی جگہ ہے جہاں سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ جڑے افراد پر مختلف اقسام کے دباؤ اور خطرات ہمیشہ منڈلاتے رہتے ہیں۔ ہم ذاتی طور پر ہر کسی کو سیکورٹی فراہم نہیں کر سکتے۔ کچھ لیڈران نے سیکورٹی لینے سے انکار بھی کیا ہے۔ تاہم جو لوگ ہم سے سکیورٹی کے لیے رجوع کرتے ہیں انہیں وقت رہتے مہیا کی جاتی ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’پولیس کی بھی اپنی کچھ مشکلات ہیں۔ اس وقت ہمارے پاس 90000 اہلکار ہیں۔ اور آپ یقین مانیں کی یہ سب وادی کے تمام سیاسی کارکنان کو سکیورٹی فراہم کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ اس وقت ہم سابق وزراء، کارکنان اور صحافیوں کو بھی سکیورٹی فراہم کرتے ہیں۔ جو ہم سے رجوع کرتا ہے اسے سکیورٹی میسر کی جاتی ہے، تاہم سب کو سیکورٹی فراہم کرنا بہت مشکل ہے۔‘‘

وہیں شمالی کشمیر کے رہنے والے بی جے پی کے ایک کارکن کا کہنا ہے کہ ’’پولیس سے سکیورٹی مانگنے سے کیا فائدہ؟ وسیم، ان کے بھائی اور والد کی ہلاکت یہ ثابت کرتی ہے کہ سکیورٹی ہو یا نہ ہو ہماری جان خطرے میں ہے۔ وسیم کی حفاظت کے لیے دس پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔ اس کے باوجود بھی عسکریت پسند انہیں ہلاک کرنے میں کامیاب ہوگئے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا: ’’ آج بارہمولہ سے ہمارے ایک اور ساتھی اغوا کیے گئے۔ پولیس انہیں ڈھونڈنے میں لگی ہوئی ہے۔ ایسا 2018 میں بھی ہوا تھا جب ہمارے ایک ساتھی کو پہلے اغوا کیا گیا اور اس کے بعد ان کی لاش برآمد کی گئی۔ انتظامیہ اور پارٹی کی جانب سے ہمیں ہر بار بھروسہ دلایا جا رہا ہے کہ ٹھوس اقدامات کیے جا رہے ہیں تاہم حقیقت کچھ اور ہی بیان کرتی ہے۔‘‘

وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام کے رہنے والے پارٹی کے کارکن نے دعویٰ کیا کہ ’’جب بھی قومی سطح کا کوئی لیڈر وادی کشمیر کے دورے پر آتا ہے تو ہم پر لازمی ہوتا ہے کہ ان کے استقبال کے لیے سرینگر جائیں۔ اس وقت عالمی وبا کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔ وائرس کے خدشات کے باوجود ہم پر حکم جاری کیا گیا کہ ہمیں رویندر رینا، جتندر سنگھ اور رام مادھو کا استقبال کرنے کے لیے پارٹی کے مرکزی دفتر جانا ہے۔ دفتر میں احتیاطی تدابیر عملائے نہیں گئے۔ گزشتہ روز رینا کورونا وائرس سے مثبت پائے گئے اور ہمیں قرنطینہ میں جانے کو کہا گیا، ہماری کیا غلطی ہے؟‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’دفعہ 370 اور 35 اے کے خاتمہ کے بعد ہم لوگوں کے پاس گئے اور پارٹی کی جانب سے جاری کیے جا رہے فرمان پر عمل کیا۔ لیکن پارٹی ہمارے ساتھ انصاف نہیں کر پا رہی۔ میرے علاوہ دیگر کارکنان بھی پارٹی سے دوری اختیار کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔‘‘

قابل ذکر ہے کہ گزشتہ ہفتے بھارتیہ جنتا یوا مورچہ کے بارہمولہ یونٹ کے صدر معروف بٹ نے پارٹی سے استعفیٰ دے دیا۔ سماجی رابطہ کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنا بیان جاری کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’میں بھارتیہ جنتا یوا مورچہ کی رکنیت اور تمام عہدوں سے استعفیٰ دیتا ہوں۔ میں پارٹی کے لیڈران کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے مجھے ایسا موقع فراہم کیا۔‘‘

بٹ کے بعد پارٹی کی کپوارہ یونٹ کے نائب صدر آصف احمد بھی منگل کے روز مستعفی ہوئے۔ استعفیٰ کی وجہ ذاتی بتاتے ہوئے احمد کا کہنا تھا کہ ’’ماحول کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ ہماری کوئی کچھ سن ہی نہیں رہا۔ علاقوں کی ترقی کے نام پر مذاق ہو رہا ہے۔‘‘

جموں و کشمیر بی جے پی کے دیگر لیڈران کے مطابق استعفیٰ دینے والے افراد اپنے ذاتی مفاد کے لئے پارٹی میں شامل ہوئے تھے۔

پارٹی کے سینئر لیڈر اور جنرل سیکریٹری اشوک کول کا کہنا ہے کہ ’’کچھ لوگ جو پارٹی سے استعفیٰ دے رہے ہیں وہ دیگر جماعتوں سے بی جے پی میں آئے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے ذاتی مفاد پورے کیے جائیں۔ اس تعلق سے وہ انتظامیہ پر دباؤ بھی بنا رہے تھے۔ تاہم انتظامیہ کے افسران نے عوام کے حق میں کام کرنا جاری رکھا۔ پارٹی کا ماحول ٹھیک ہے۔‘‘

وہیں پارٹی کے ترجمان منظور بٹ کا کہنا ہے کہ ’’بی جے پی ایک کھمبے کی طرح ہے۔ شکوے، شکایت ہوتی رہتی ہے اور سب مل کر اس کا حل بھی نکالتے ہیں۔ مانتا ہوں کہ ہمارے کارکنان اس وقت خوف زدہ ہیں۔ انہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں پارٹی کی جانب سے بہتر اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔‘‘

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.