سرینگر: گلوبل سطح پر ماحولیاتی تبدیلی یعنی کلائمیٹ چینج کی وجہ سے پوری دنیا متاثر ہورہی ہے اور اس کی زد سے ایشیائی کا ہمالیہ پہاڑ بھی محفوظ نہیں ہے۔ ایشیاء کا ہمالیہ پہاڑ میں متعدد دریاؤں کے ذخائر ہیں جو اس خطہ میں آباد ممالک کی زراعت و دیگر شعبوں کے لیے کافی اہم ہیں۔ تاہم کلائمیٹ چینج سے یہ پانی کے ذخائر متاثر ہورہے ہیں جس سے زرعی شعبہ بھی منفی طور پر متاثر ہوا ہے۔ ایشیاء میں کلائمیٹ چینج نے کشمیر میں کافی حد تک ماحولیات و دیگر شعبوں کو متاثر کیا ہے۔ اس سلسلہ میں ماحولیات کی ماہر پروفیسر دسنا رتناسکیرا نے خاص گفتگو میں کئی باتوں کا خلاصہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
global wind day: گلوبل ونڈ ڈے کیوں منایا جاتا ہے؟
پروفیسر دسنا رتناسکیرا سری لنکا یونیورسٹی میں ماحولیات کے شعبہ میں اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں اور ہمالیہ پر کلائمیٹ چینج سے زرعی شعبہ پر اثرات کی محقق و ماہر ہے۔ مذکورہ پروفیسر کشمیر کی زرعی یونیورسٹی یعنی SKUAST-K میں ہورہی دو روزہ کلائمیٹ چینج میں حصہ لے رہی ہیں۔ اس کانفرنس میں ملک و بیرون ملک سے ماحولیات کے ماہرین و محقق آئے ہوئے ہیں۔ پروفیسر رتناسکیرا نے بتایا کہ کلائمیٹ چینج کی وجہ سے ایشیاء کے ہمالیہ پہاڑ بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ جس سے شعبۂ زراعت منفی طور پر متاثر ہو رہا ہے۔
کلائمیٹ چینج پر حکمت عملی بنانے کی ضرورت
انہوں نے کہا کہ گزشتہ دہائی سے عالمی سطح پر کلائمیٹ چینج سے آبی و دیگر قدرتی وسائل بری طرح متاثر ہوئے ہیں، بالخصوص ہمالیہ پہاڑ میں موجود گلیشیئر سکڑ رہے ہیں یا تیزی سے پگل رہے ہیں جس سے تمام حیاتیات متاثر ہوئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایشیاء میں رہنے والے ممالک بالخصوص بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش، نیپال جو ہمالیہ پہاڑ کے دامن میں بس رہے ہیں کے زراعت کے شعبے یا ہارٹیکلچر کے شعبے ختم ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان ممالک کو ایک ساتھ ہوکر کلائمیٹ چینج کے اثرات کو کم کرنے پر حکمت عملی بنانی چاہیے اور اس کو مل کر عملانے کی ضرورت ہے تاکہ اس خطہ میں شعبۂ زراعت یا مجموعی طور پر ماحولیات کو بچایا جاسکے۔