ETV Bharat / state

سندھ طاس معاہدہ: ہند و پاک تعلقات کے لئے پیچیدہ

ای ٹی وی بھارت کے ایڈیٹر بلال احمد بھٹ اپنے اس آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ 'ایسا لگتا ہے کہ دریائے جہلم جو جنوبی کشمیر کے ویری ناگ سے نمودار ہوتا ہے، نے کشمیر سے متعلق پاکستان کی طلب ختم کردی ہے اور اب وہ خطے میں قیام امن کے لئے تمام تنازعات کو بامعنیٰ مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے'۔

Indo Pak relation
بھارت پاک رشتے
author img

By

Published : Mar 21, 2021, 10:02 PM IST

بھارت اور پاکستان کے درمیان 1960ء میں طے پائے گئے انڈس واٹر ٹریٹی (سندھ طاس آبی معاہدہ)، جس میں دونوں ملکوں نے پانی کی منصفانہ تقسیم کاری کو تسلیم کیا ہے، سے متعلق قائم کمیشن مذاکرات کرنے والا ہے۔ اس ضمن میں منگل کو پاکستانی وفد نئی دلی پہنچ رہا ہے، جو جموں و کشمیر میں دریائے چناب پر تعمیر شدہ ہائیڈرو پروجیکٹ جیسے متنازعہ امور پر اپنے بھارتی ہم منصبوں کے ساتھ بات چیت کرے گا۔

پچھلی بار اس کمیشن نے 2018ء میں لاہور میں بات چیت کی تھی، حالانکہ اس طرح کی میٹنگ کا انعقاد سال میں ایک بار لازمی ہے۔ تاہم دفعہ 370 کے کالعدم کئے جانے اور اس کے بعد لائن آف کنٹرول پر رونما ہوئے پُر تشدد واقعات کی وجہ سے ہند و پاک کے درمیان جاری تناؤ بڑھ گیا اور کمیشن کی میٹنگ نہیں ہو پائی۔ بظاہر پس پردہ ڈپلومیسی کی کوششوں کے نتیجے میں برف پگل گئی ہے اور دونوں ممالک مذاکرات کی میز پر آ گئے ہیں۔ ان ہی کوششوں کے نتیجے میں ایک ماہ قبل دونوں ممالک نے جنگ بندی معاہدے کی تجدید بھی کی ہے۔

سندھ طاس معاہدہ جو بھارت اور پاکستان کے دمیان 1960ء کو ہوا ہے، میں دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے کے خطوں میں آنے والے پانی کی منصفانہ تقسیم پر پیدا شدہ تنازعے اور اس طرح کے دیگر تنازعات پر بھی بات چیت متوقع ہے۔ اس معاہدے سے قبل دونوں ممالک کے درمیان 1948ء کا سٹینڈ سِٹل معاہدہ نافذ تھا اور اسی کی رو سے دونوں منقسم اقوام کے درمیان پانی کی تقسیم کاری ہورہی تھی۔

سندھ طاس معاہدے کے دائرہ نفاذ میں چھ دریا اندس، جہلم، چناب، روی، ستلج اور بیاس آتے ہیں۔ معاہدے کی رو سے پاکستان کو مغربی دریاوں جہلم چناب اور اندس، جو بھارت سے برآمد ہوتے ہوئے پاکستان میں بہہ جاتے ہیں، پر مکمل حق ہے اور بھارت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ڈیموں کی تعمیر کرکے پاکستان کو پانی سے محروم کرے۔

معاہدے کی رو سے بھارت کو باقی ماندہ دریاوں روی، بیاس اور ستلج کے پانی کو استعمال کرنے کا حق حاصل ہے۔ اگرچہ اندس تبت سے برآمد ہوتا ہے لیکن بیجنگ کو اس معاہدے میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ جبکہ ورلڈ بینک نے بھی بھارت اور پاکستان کے درمیان ہوئے ان معاہدوں پر دستخظ کئے ہیں۔ ورلڈ بینک کا کردار ایک ثالث کا ہے اور وہ کسی بھی ایسے پروجیکٹ میں سرمایہ کاری نہیں کرے گا، جس میں معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی ہو۔ دراصل یہ ورلڈ بینک ہی تھا، جس نے دونوں ملکوں کے درمیان اس معاہدے کے لئے سہولت کار کا کردار ادا کیا۔

دریائے اندس، چناب اور جہلم وہ تین اہم دریا ہیں جو پاکستان کی معیشت کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور اس کے لئے شاہ رگ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کی زرعی معیشت کا انحصار ان ہی تین دریاوں پر ہے۔ چناب اور جہلم جموں و کشمیر سے ہوکر گزرتے ہیں اور جنگ بندی لائن، جسے لائن آف کنٹرول کے نام سے جانا جاتا ہے، سے ہوتے ہوئے پاکستان میں داخل ہو جاتے ہیں۔ جب سے دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی معاہدے کی توثیق ہوئی ہے، لائن آف کنٹرول پر سکوت ہے۔

پاکستان کے پرمنٹ کمیشن، کی سربراہی سید مہر علی شاہ کررہے ہیں اور مسٹر پی کے سیکسینہ اُن کے بھارتی ہم منصب ہیں۔ دونوں عہدیدار موسمیات، آبپاشی اور دیگر متعلقہ محکموں کے ماہرین کی ٹیمز کو ساتھ لیکر مذاکرات کریں گے اور اس بات چیت کا محور بغلیار اور پکل ڈول ہائیڈرو پروجیکٹ جیسے متنازعہ امور ہونگے۔ یہ دونوں ہائیڈرو پروجیکٹس جموں خطے میں دریائے چناب پر دو ملحقہ اضلاع ڈوڈہ اور کشتواڑ میں تعمیر کئے گئے ہیں۔

پاکستان نے پہلے دریائے چناب پر ڈیمز کی تعمیر پر اپنا اعتراض ظاہر کیا تھا اور موقعہ پر معائنہ کرنے کی سہولت مانگی تھی۔ جس کے بعد پاکستانی ٹیم نے جموں و کشمیر اور دیگر جگہوں کا دورہ کیا۔ ان ڈیمز پر رُکا پڑا کام اُس وقت بحال ہوگیا تھا، جب ورلڈ بینک نے اس میں مداخلت کی۔

لیکن ان دریاوں پر ہائیڈرو پروجیکٹس کی تعمیر کے بھارتی منصوبوں نے پاکستان کو ناراض کیا اور اس پر پاکستانی حکام اپنے بھارتی ہم منصبوں سے رابطہ کرتے رہے۔

یہ عمران خان تھے، جنہوں نے بھارت کے ساتھ بات چیت میں دلچسپی کا اظہار سب سے پہلے کیا اور پھر پاکستانی فوجی سربراہ قمر جاوید باجواہ نے گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں ڈیفینس سٹریٹجیک تقریب میں اس کی توثیق کی اور بھارت کو مشورہ دیا کہ وہ کشمیر پر پر امن مذاکرات کےلئے ایک ’موافق ماحول‘ پیدا کرے۔

حقیقت یہ ہے کہ باجواہ نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے کہا کہ ماضی کو دفن کیا جانا چاہیے۔ دونوں ممالک کے مبصرین اس بیان کو پاکستان کی کشمیر سے متعلق پالیسی پر ایک مکمل بدلاو مانتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے اس موقعے پر دفعہ 370 کی بحالی کا تذکرہ کیا اور نہ ہی اقوام متحدہ کی قراردوں کے تحت حل کا ذکر کیا۔ یہ جنگبندی کی توثیق ہی تھی، جس نے دونوں ملکوں کے تعلقات میں جمی برف کو پگلا دیا اور سرحدوں پر تناو ختم کیا۔

یہ بھی پڑھیں: جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد سے سرحدی آبادی میں مسرت

ایسا لگتا ہے کہ پاکستان نے کشمیر پر اپنے موقف کو تیاگ دیا ہے اور یہ بات ہر گزرنے والے دن کے ساتھ واضح ہوتی جارہی ہے۔ سید علی شاہ گیلانی جیسے سخت گیر اور پاکستان نواز علاحدگی پسند، جنہوں نے جنگ بندی کو پاکستان کی جانب سے کمپرومائز کی ایک زندہ مثال قرار دیتے ہوئے اسے ہدف تنقید بنایا تھا، پر بھی لگام کس لی گئی ہے۔ کشمیر سے پاکستان کی جانب بہنے والے پانی کا دونوں ملکوں کی کشمیر سے متعلق سیاست میں ایک کلیدی رول ہے اور انڈس واٹر کمیشن کی میٹنگ اسی ضمن میں منعقد کی جارہی ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ دریائے جہلم جو جنوبی کشمیر کے ویری ناگ سے نمودار ہوتا ہے، نے کشمیر سے متعلق پاکستان کی طلب ختم کردی ہے اور اب وہ خطے میں قیام امن کے لئے تمام تنازعات کو بامعنیٰ مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے۔ در اصل یہ کشمیر ہی ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کو فائینانشل ایکشن ٹاسک فورس میں پیچیدگیاں بڑھا رہا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے حوالے سے تناو پیدا کررہا ہے۔ اس لئے باجواہ اور خان دونوں کو احساس ہوا ہے کہ پانی کے تنازعات کے بشمول بھارت کےساتھ تمام مسائل پر بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ ساری ڈیولپمنٹس ایک ایسے وقت پر ہورہی ہیں، جب عالمی سیاست کے ذریعے دُنیا میں نئی تبدیلیاں وقوع پذیر ہورہی ہیں اور اس ضمن میں بھارت اور پاکستان کو اہم کردار ادا کرنا ہے۔ ایک جانب بھارت چین مخالف کاڈ کا حصہ ہے اور اس کے برعکس پاکستان بیجنگ کے بی آر آئی پروجیکٹ کا ایک اہم حصہ ہے۔ چین اور روس بھی اب ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔ ایسے میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ آیا انڈس واٹر پر مذاکرات کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر کی وجہ سے موجود تلخیاں کم ہونگیں یا پھر یہ محض ایک وقتی اقدام ثابت ہوگا۔ پاکستان بظاہر اپنے اندرونی مسائل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے کشمیر مسئلے کے حوالے سے اپنے موقف میں ایک بہت بڑی تبدیلی کا اظہار کررہا ہے۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان 1960ء میں طے پائے گئے انڈس واٹر ٹریٹی (سندھ طاس آبی معاہدہ)، جس میں دونوں ملکوں نے پانی کی منصفانہ تقسیم کاری کو تسلیم کیا ہے، سے متعلق قائم کمیشن مذاکرات کرنے والا ہے۔ اس ضمن میں منگل کو پاکستانی وفد نئی دلی پہنچ رہا ہے، جو جموں و کشمیر میں دریائے چناب پر تعمیر شدہ ہائیڈرو پروجیکٹ جیسے متنازعہ امور پر اپنے بھارتی ہم منصبوں کے ساتھ بات چیت کرے گا۔

پچھلی بار اس کمیشن نے 2018ء میں لاہور میں بات چیت کی تھی، حالانکہ اس طرح کی میٹنگ کا انعقاد سال میں ایک بار لازمی ہے۔ تاہم دفعہ 370 کے کالعدم کئے جانے اور اس کے بعد لائن آف کنٹرول پر رونما ہوئے پُر تشدد واقعات کی وجہ سے ہند و پاک کے درمیان جاری تناؤ بڑھ گیا اور کمیشن کی میٹنگ نہیں ہو پائی۔ بظاہر پس پردہ ڈپلومیسی کی کوششوں کے نتیجے میں برف پگل گئی ہے اور دونوں ممالک مذاکرات کی میز پر آ گئے ہیں۔ ان ہی کوششوں کے نتیجے میں ایک ماہ قبل دونوں ممالک نے جنگ بندی معاہدے کی تجدید بھی کی ہے۔

سندھ طاس معاہدہ جو بھارت اور پاکستان کے دمیان 1960ء کو ہوا ہے، میں دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے کے خطوں میں آنے والے پانی کی منصفانہ تقسیم پر پیدا شدہ تنازعے اور اس طرح کے دیگر تنازعات پر بھی بات چیت متوقع ہے۔ اس معاہدے سے قبل دونوں ممالک کے درمیان 1948ء کا سٹینڈ سِٹل معاہدہ نافذ تھا اور اسی کی رو سے دونوں منقسم اقوام کے درمیان پانی کی تقسیم کاری ہورہی تھی۔

سندھ طاس معاہدے کے دائرہ نفاذ میں چھ دریا اندس، جہلم، چناب، روی، ستلج اور بیاس آتے ہیں۔ معاہدے کی رو سے پاکستان کو مغربی دریاوں جہلم چناب اور اندس، جو بھارت سے برآمد ہوتے ہوئے پاکستان میں بہہ جاتے ہیں، پر مکمل حق ہے اور بھارت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ڈیموں کی تعمیر کرکے پاکستان کو پانی سے محروم کرے۔

معاہدے کی رو سے بھارت کو باقی ماندہ دریاوں روی، بیاس اور ستلج کے پانی کو استعمال کرنے کا حق حاصل ہے۔ اگرچہ اندس تبت سے برآمد ہوتا ہے لیکن بیجنگ کو اس معاہدے میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ جبکہ ورلڈ بینک نے بھی بھارت اور پاکستان کے درمیان ہوئے ان معاہدوں پر دستخظ کئے ہیں۔ ورلڈ بینک کا کردار ایک ثالث کا ہے اور وہ کسی بھی ایسے پروجیکٹ میں سرمایہ کاری نہیں کرے گا، جس میں معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی ہو۔ دراصل یہ ورلڈ بینک ہی تھا، جس نے دونوں ملکوں کے درمیان اس معاہدے کے لئے سہولت کار کا کردار ادا کیا۔

دریائے اندس، چناب اور جہلم وہ تین اہم دریا ہیں جو پاکستان کی معیشت کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور اس کے لئے شاہ رگ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کی زرعی معیشت کا انحصار ان ہی تین دریاوں پر ہے۔ چناب اور جہلم جموں و کشمیر سے ہوکر گزرتے ہیں اور جنگ بندی لائن، جسے لائن آف کنٹرول کے نام سے جانا جاتا ہے، سے ہوتے ہوئے پاکستان میں داخل ہو جاتے ہیں۔ جب سے دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی معاہدے کی توثیق ہوئی ہے، لائن آف کنٹرول پر سکوت ہے۔

پاکستان کے پرمنٹ کمیشن، کی سربراہی سید مہر علی شاہ کررہے ہیں اور مسٹر پی کے سیکسینہ اُن کے بھارتی ہم منصب ہیں۔ دونوں عہدیدار موسمیات، آبپاشی اور دیگر متعلقہ محکموں کے ماہرین کی ٹیمز کو ساتھ لیکر مذاکرات کریں گے اور اس بات چیت کا محور بغلیار اور پکل ڈول ہائیڈرو پروجیکٹ جیسے متنازعہ امور ہونگے۔ یہ دونوں ہائیڈرو پروجیکٹس جموں خطے میں دریائے چناب پر دو ملحقہ اضلاع ڈوڈہ اور کشتواڑ میں تعمیر کئے گئے ہیں۔

پاکستان نے پہلے دریائے چناب پر ڈیمز کی تعمیر پر اپنا اعتراض ظاہر کیا تھا اور موقعہ پر معائنہ کرنے کی سہولت مانگی تھی۔ جس کے بعد پاکستانی ٹیم نے جموں و کشمیر اور دیگر جگہوں کا دورہ کیا۔ ان ڈیمز پر رُکا پڑا کام اُس وقت بحال ہوگیا تھا، جب ورلڈ بینک نے اس میں مداخلت کی۔

لیکن ان دریاوں پر ہائیڈرو پروجیکٹس کی تعمیر کے بھارتی منصوبوں نے پاکستان کو ناراض کیا اور اس پر پاکستانی حکام اپنے بھارتی ہم منصبوں سے رابطہ کرتے رہے۔

یہ عمران خان تھے، جنہوں نے بھارت کے ساتھ بات چیت میں دلچسپی کا اظہار سب سے پہلے کیا اور پھر پاکستانی فوجی سربراہ قمر جاوید باجواہ نے گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں ڈیفینس سٹریٹجیک تقریب میں اس کی توثیق کی اور بھارت کو مشورہ دیا کہ وہ کشمیر پر پر امن مذاکرات کےلئے ایک ’موافق ماحول‘ پیدا کرے۔

حقیقت یہ ہے کہ باجواہ نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے کہا کہ ماضی کو دفن کیا جانا چاہیے۔ دونوں ممالک کے مبصرین اس بیان کو پاکستان کی کشمیر سے متعلق پالیسی پر ایک مکمل بدلاو مانتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے اس موقعے پر دفعہ 370 کی بحالی کا تذکرہ کیا اور نہ ہی اقوام متحدہ کی قراردوں کے تحت حل کا ذکر کیا۔ یہ جنگبندی کی توثیق ہی تھی، جس نے دونوں ملکوں کے تعلقات میں جمی برف کو پگلا دیا اور سرحدوں پر تناو ختم کیا۔

یہ بھی پڑھیں: جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد سے سرحدی آبادی میں مسرت

ایسا لگتا ہے کہ پاکستان نے کشمیر پر اپنے موقف کو تیاگ دیا ہے اور یہ بات ہر گزرنے والے دن کے ساتھ واضح ہوتی جارہی ہے۔ سید علی شاہ گیلانی جیسے سخت گیر اور پاکستان نواز علاحدگی پسند، جنہوں نے جنگ بندی کو پاکستان کی جانب سے کمپرومائز کی ایک زندہ مثال قرار دیتے ہوئے اسے ہدف تنقید بنایا تھا، پر بھی لگام کس لی گئی ہے۔ کشمیر سے پاکستان کی جانب بہنے والے پانی کا دونوں ملکوں کی کشمیر سے متعلق سیاست میں ایک کلیدی رول ہے اور انڈس واٹر کمیشن کی میٹنگ اسی ضمن میں منعقد کی جارہی ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ دریائے جہلم جو جنوبی کشمیر کے ویری ناگ سے نمودار ہوتا ہے، نے کشمیر سے متعلق پاکستان کی طلب ختم کردی ہے اور اب وہ خطے میں قیام امن کے لئے تمام تنازعات کو بامعنیٰ مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے۔ در اصل یہ کشمیر ہی ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کو فائینانشل ایکشن ٹاسک فورس میں پیچیدگیاں بڑھا رہا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے حوالے سے تناو پیدا کررہا ہے۔ اس لئے باجواہ اور خان دونوں کو احساس ہوا ہے کہ پانی کے تنازعات کے بشمول بھارت کےساتھ تمام مسائل پر بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ ساری ڈیولپمنٹس ایک ایسے وقت پر ہورہی ہیں، جب عالمی سیاست کے ذریعے دُنیا میں نئی تبدیلیاں وقوع پذیر ہورہی ہیں اور اس ضمن میں بھارت اور پاکستان کو اہم کردار ادا کرنا ہے۔ ایک جانب بھارت چین مخالف کاڈ کا حصہ ہے اور اس کے برعکس پاکستان بیجنگ کے بی آر آئی پروجیکٹ کا ایک اہم حصہ ہے۔ چین اور روس بھی اب ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔ ایسے میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ آیا انڈس واٹر پر مذاکرات کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر کی وجہ سے موجود تلخیاں کم ہونگیں یا پھر یہ محض ایک وقتی اقدام ثابت ہوگا۔ پاکستان بظاہر اپنے اندرونی مسائل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے کشمیر مسئلے کے حوالے سے اپنے موقف میں ایک بہت بڑی تبدیلی کا اظہار کررہا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.