سرینگر: قومی اور بین الاقومی سطح پر شہرت یافتہ صحافی شجاعت بخاری کے قتل کو چار سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ پولیس نے ابتدائی تحقیقات میں ہی ان کے قتل کا الزام عسکریت پسندوں پر عائد کرتے ہوئے تین افراد کی گرفتاری عمل میں لانے کا دعوی کیا تھا لیکن صحافی برادری میں ان کے قتل کے معاملے کے تعلق سے کئی شک وشبہات پائے جاتے ہیں۔
وادی کشمیر کے معروف صحافی شجاعت بخاری کی آج چوتھی برسی ہے۔ 14 جون 2018 کو شجاعت بخاری کو پریس کالونی سرینگر میں واقع ان کے دفتر کے باہر دو محافظوں سمیت نامعلوم بندوق برداروں نے گولی مار ہلاک کر دیا تھا۔۔Shujaat Bukhari 4th Anniversary
شجاعت بخاری کو ان کے عزیز و اقارب، دوست و احباب اور وہ صحافی بھی بڑی شدت سے یاد کرتے ہیں جنہوں نے ان کی رہبری اور حوصلہ سے ہی صحافتی میدان میں قدم رکھا ہے۔ صحافتی برادری کے علاوہ فن و ادب سے وابستہ افراد بھی انہیں یاد کرتے ہیں جو ان کی بے باک صحافت سےکافی متاثر تھے۔
بخاری کے اخبار "دی رائزنگ کشمیر" سے اپنی صحافت کا سفر شروع کرنے والے نظیر گنائی کا کہنا ہے کہ " شجاعت صاحب کے ساتھ ان کی وابستگی گذشتہ 18 برسوں سے رہی ۔ وادی کے کافی صحافیوں کی کامیابی کے پیچھے شجاعت صاحب کی محنت اور رہنمائی ہے۔ اُن کے بارے میں جتنا کچھ بولا جائے وہ کم ہے۔" اُن کا مزید کہنا تھا کہ "وہ صرف ایک صحافی نہیں تھے بلکہ ایک سماجی کارکن بھی تھے۔ اُنہوں نے کشمیری زبان کو فروغ دینے کے لیے جو کام کیا ہے وہ سرہانے کے لائق ہے۔"گنائی کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے شجاعت کی یاد میں وادی کے معروف سونگ رائیٹر بشیر دادا کے ساتھ مل کر ایک کشمیری نغمہ بھی منظر عام میں لایا ہے۔
بخاری نے نہ صرف صحافتی میدان میں بہت کم وقت میں ایک اعلی مقام حاصل کیا تھا بلکہ زبان و ادب کے میدان میں بھی انہوں نے اپنی الگ پہچان بنائی تھی۔
2018 کے رمضان المبارک کی 29 ویں تاریخ تھی، لوگ عیدالفطر کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ اچانک افطاری کے وقت یہ خبر ہر سوشل میڈیا پر پھیل گئی کہ عالمی شہرت یافتہ صحافی شجاعت بخاری کا کسی نے قتل کر دیا۔اگرچہ صحافت کا یہ تابندہ ستارہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہوگیا لیکن دنیائے صحافت میں اس کی جلائی گئی شمع ہمیشہ روشن رہے گی۔
واضح رہے 1990 سے مسلح شورش کے بعد اب تک کئی صحافیوں کو نامعلوم مسلح افراد نے اس طرح ہلاک کیا ہےجس کی وجہ سے وادی کشمیر میں صحافت کو شدید مشکلات درپیش ہیں۔