سرینگر: جہاں بھارت اور چین کے درمیان حقیقی لائن آف کنٹرول پر کشیدگی جاری ہے اور چین کے صدر شی جن پنگ نے بھارت کی راجدھانی دہلی میں منعقد ہونے والی جی 20 سمیٹ میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہیں منگل کے روز جموں و کشمیر کی گرمائی دارالحکومت سرینگر میں تبت کے جلا وطن حکومت کے تین رکن پارلیمان نے دعویٰ کیا کہ "اچھا ہوا کی وہ شی جن پنگ یہاں نہیں آرہے ہیں۔"
سرینگر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تبت کی جلا وطن حکومت کے رکن پارلیمان داوا سیسرنگ نے دعویٰ کیا کہ "یہ اچھی بات ہے کہ چین کے صدر شی جن پنگ جی 20 اجلاس کے لیے بھارت نہیں آرہے ہیں۔ ایک طرف وہ برکس اجلاس کے دوران بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ہاتھ ملتے ہیں جبکہ دوسری جانب وہ ایک غیر قانونی نقشہ جاری کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پہلے بھی ہندی - چینی بھائی بھائی کا نعرہ دیکر انہوں نے دھوکہ دیا ہے۔ بھارت اور چین کے درمیان جو سرحد ہے وہ تبت ہے، یہ دو ملک برائے راست کہیں نہیں جوڑتے،اس کے باوجود وہ بھارت کی زمین پر قبضہ کر رہے ہیں۔"
اُن کا مزید کہنا تھا کہ"بھارت کے عوام کو چاہیے کی وہ چین کے سامان کا بائیکاٹ کریں۔ چین کے سامان پر تو بھارت سرکار کو بھی پابندی لگانے چاہیے تھی، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات ہوتے ہیں، اس لیے عوام کو انفرادی طور پر چینی سامان کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔
بدھ مت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کے کال کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ "اس وقت کوئی بھی ملک اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ تبت ایک الگ ملک تھا۔ اس لیے دلائی لامہ کی کال صحیح ہے کہ ہم کو سب کچھ چینی آئین کے تحت چاہیے۔ ہم چینی حکومت کے خلاف ہے وہاں کی عوام کے خلاف نہیں۔"
داوا سیسرنگ کے ہمراہ تینپا یارفیل اور یشی ڈولما بھی تھے۔ تینوں رکن پارلیمان نے کشمیر کے دورے کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہماچل، لداخ اور جموں و کشمیر میں تبت کی عوام کو ہو رہی مشکلات، وہاں ہو رہے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے بیداری پیدا کرنا ہے۔اس موقعے پر ایک رکن پارلیمان يشی ڈولما نے بھارت سرکار اور عوام کے لیے دس نختوں پر مشتمل ایک میمورنڈم بھی جاری کیا۔
اس میمورنڈم میں بھارت سرکار سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ "چین کے قبضے سے قبل تبت 2000 سے زائد برسوں تک ایک بفر ریاست تھی۔ اس لیے آپ کی حکومت (بھارت سرکار) اور آپ سے گزارش ہے کہ آپ تبت کو اس کے اپنے آزاد اور خود مختار ماضی کے ساتھ ایک مقبوضہ ملک کے طور پر تسلیم کریں۔ تبتیوں کو اقلیت قرار دیکر اور تبت کے قبضے کو چین کا اندرونی مسئلہ قرار دیکر چین کے جھوٹے بیانیے کی توثیق سے پرہیز کریں۔ "
اس کے مزید کہا گیا ہے کہ "بنا کسی شرط کے دوبارہ تبتیوں سے مذاکرات کرنے کے لیے چین پر دباؤ ڈالا جائے اور اقوام متحدہ اور دیگر غیر جاندارانہ انسانی حقوق کے اداروں کو تبت کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے بولا جائے۔ اس کے علاوہ تبت کی مرکزی انتظامیہ کے ساتھ برائے راست تعلقات قائم کیا جائے، بھارت کے قانون سازوں کو بھی چاہیے کی وہ تبت کے حق میں آواز بلند کرنے۔