سرینگر: جموں کشمیر لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ نے سرینگر کی مرکزی جامع مسجد میں نماز جمعہ کی باجماعت اجازت نہیں دی، اس کے علاوہ تاریخی مسجد کے خطیب اور علیحدگی پسند تنظیم کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین میر واعظ مولوی محمد عمر فاروق کو گھر میں نظر بند رکھا گیا۔
جامع مسجد کی اوقاف کمیٹی کا کہنا ہے کہ آج پانچواں جمعہ کے روز سرینگر انتظامیہ نے مسجد کو مقفل کیا اور فرزندان توحید کو نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی۔ وہیں میر واعظ عمر فاروق جن کو چار برس کی طویل گھر نظر بندی کے بعد رہا کیا گیا تھا کو مسلسل پانچویں جمعہ سے گھر میں نظر بند رکھا گیا ہے۔
اوقاف کمیٹی کے مطابق مقامی انتظامیہ نے اگرچہ اس تاریخی مسجد میں نماز جمعہ پر پابندی عائد کرنے کا کوئی وجہ ظاہر نہیں کیا ہے، تاہم انتظامیہ میں ذرائع نے بتایا کہ حکام کو فلسطین پر اسرائیلی جارحیت اور بمباری کے پیش نظر جامع مسجد میں نماز جمعہ کے بعد احتجاجی مظاہروں کا خدشہ ہے جس کے پاداش میں جمعہ نماز کے اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اقدام انتظامیہ اور سکیورٹی فورسز نے احتیاطی تدبیر کے طور پر لیا ہے۔
جامع مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی پر پابندی عائد کرنے پر انجمن اوقاف جامع مسجد سرینگر نے اسے بلا جواز قرار دیا ہے۔اوقاف نے کہا کہ انتظامیہ کی طرف سے انہیں مطلع کیا گیا کہ وہ جامع مسجد کے تمام دروازے بند کر دیں اور نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے نہ کھولیں۔
میرواعظ کی لگاتار پانچویں جمعہ کو نظربندی کے عمل پر انجمن نے کہا کی میرواعظ کی نظر بندی عوامی حلقوں کیلئے شدید فکر وتشویش کا باعث بنا ہوا ہے اور موصوف کی بلا جواز نظر بندی کیخلاف عوامی اضطراب اور بے چینی میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔
یاد رہے کہ 7 اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا جس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ پر بمباری کی ہے۔ اس بمباری میں غزہ میں 10 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوگئے ہیں، جن میں بیشتر بچے اور خواتین شامل ہے۔
ماضی میں کشمیر میں فلسطین کے حق اور اسرائیل کے خلاف مظاہرے اور احتجاج ہوتے تھے، لیکن اب انتظامیہ نے اس پر مکمل قدغن عائد کی ہے۔ ایل جی انتظامیہ نے ضلع بڈگام کے امام باڑہ اور وہاں کے مقامی خطیب سعید محمد ہادی کو بھی گزشتہ دو جمعہ سے نظر بند رکھا تھا اور اس علاقے میں اضافی سکیورٹی فورسز تعینات کئے تھے۔
مزید پڑھیں:
وہیں جموں کشمیر انتظامیہ نے مقامی خطیبوں اور اماموں سے مساجد و خانقاہوں میں فلسطین پر بات کرنے پر قدغن عائد کیا ہے اور یہ متنبہ کیا ہے کہ پولیس ایسے خطیب یا امام پر قانونی کارروائی کرے گی جو فلسطین کے مسئلے پر بات کرے گا۔دراصل دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر میں کسی بھی مظاہرے یا احتجاج کرنے سے لوگ گریز کررہے ہیں۔