ETV Bharat / state

When Soz Brought Down Vajpee Govt: میرا ووٹ واجپائی نہیں فاروق عبداللہ کے خلاف تھا، سیف الدین سوز

کانگریس کے سینئر لیڈر سیف الدین سوز نے ای ٹی وی بھارت کے نمائندے ذو القرنین زلفی کے ساتھ خصوصی گفتگو کے دوران جموں و کشمیر کے ایل جی کو مشورہ دیا کہ وہ ’’عوام کُش فیصلے نہ لیں، کیونکہ وہ یہاں عارضی ہیں، جلد ہی جموں و کشمیر میں انتخابات کے بعد عوامی حکومت قائم ہوگی۔‘‘

سینئر کانگریس لیڈر سیف الدین سوز کی ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خصوصی گفتگو
سینئر کانگریس لیڈر سیف الدین سوز کی ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خصوصی گفتگو
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Nov 6, 2023, 7:21 PM IST

سینئر کانگریس لیڈر سیف الدین سوز کی ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خصوصی گفتگو

سرینگر (جموں و کشمیر) : ’’جب بھی انتخاب منعقد ہوکر عوامی حکومت معرض وجود میں آئے گی، وہ دفعہ 370بحال کرنے کی مکلف ہوگی۔ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو انہیں عوام کی عدالت میں اس کا جواب دینا ہوگا۔‘‘ ان باتوں کا اظہار سابق رکن پارلیمان اور انڈین نیشنل کانگریس کے سینئر لیڈر سیف الدین سوز نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ ایک خصوصی گفتگو کے دوران کیا۔

سیف الدین سوز نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا: ’’موجودہ دور کی سیاست میں اقدار کی کمی ہے۔ پہلے سیاستدان عوام کے ساتھ گھل مل جاتے تھے اور اُن کے مسائل ہل کرنے کے لیے پیش پیش رہتے تھے، تاہم آج کل ایسے چند ہی سیاستدان ہیں جو عوام کی بہبودی کے بارے میں سوچتے ہیں۔ سیاست میں مادیت پرستی کا عنصر شامل ہو گیا ہے، جس سے سیاسی اقدات میں حد درجہ کمی واقع ہوئی ہے۔‘‘

سنہ 2019 کے اگست مہینے کی پانچ تاریخ کو جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخی کیے جانے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سوز کا کہنا تھا کہ ’’کشمیر کے ماحول میں کھتاس پیدا ہو گئی ہے۔ ہمارے لیڈران نے بھارت کے ساتھ الحاق چند شرطوں پر کیا تھا۔ لیکن مرکز نے جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ بڑی نا انصافی کی ہے، کرتے آ رہے ہیں، اور کر رہے ہیں۔‘‘ سوز نے دعویٰ کیا کہ ’’جواہر لعل نہرو (کے زمانے) سے لیکر اب تک (یہاں کے) لوگ (مرکز سے) ناراض ہیں۔ اس وقت کے حکمران بھی ہر روز کچھ ایسا کرتے ہیں جس سے جموں و کشمیر کے لوگوں کے دل آزردہ ہو جاتے ہیں۔‘‘

سوز کا مزید کہنا تھا کہ ’’وزیر اعظم اور وزیر داخلہ خوشی مناتے ہیں کہ اُنہوں نے دفعہ 370 کو منسوخ کر دیا، یہ لوگ اپنی اس خوشی کو جموں و کشمیر کے لوگوں پر تھوپنا چاہتے ہیں، جو غلط ہے۔ ہمارے احساسات اور ہماری خواہشات اپنے ہیں اور آپ اُن خواہشات کو بدل نہیں سکتے۔ مرکزی سرکار غلط راستے پر ہے۔ بی جے پی کے لوگ کہتے رہتے ہیں کہ ’دفعہ 370 خراب تھا‘ لیکن جموں و کشمیر کی عوام اُن کا ساتھ نہیں دیتی ہے۔ دفعہ 370 ہماری داخلی خود مختاری کا عنوان تھا۔ اور اس کے لیے جد و جہد جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گی۔‘‘ سیف الدین سوز نے دفعہ 370کو بحال کرنے کے حوالہ سے جاری جد و جہد کے حوالہ سے کہا: ’’ یہ نسل بھی لڑتی رہی ہے اور آنے والی نسل بھی جدو جہد جاری رکھے گی۔‘‘

جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات نہ کرائے جانے کی وجہ پر بات کرتے ہوئے سوز نے کہا کہ مرکزی سرکار انتخابات سے اپنا دامن بچانے کی کوشش میں ہے۔ سیف الدین سوز کے مطابق ’’مرکزی سرکار کو ڈر ہے کہ انہیں یہاں کیا میلے گا؟ کشمیر میں ایک سیٹ نہیں مل سکتی ہے بی جے پی کو، چاہئے وہ کروڑوں روپے ہی خرچ کر لے۔ جموں میں کیا ملے گا؟ یہاں بڑی پارٹی کانگریس ہے، نیشنل کانفرنس ہے اور دیگر مقامی جماعتیں ہیں۔ انتخابات میں وہ (غیر بی جے پی پارٹیز) اپنا حصہ لیں گی لیکن بی جے پی کو کچھ نہیں ملے گا۔‘‘

کانگریس کے اندرونی معاملات پر بات کرنے سے پرہیز کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’’وقار رسول کو موقع ملا ہے اور اُن کو اچھے سے کام کرنا چاہیے۔ کرن سنگھ نے عمر پیری کی وجہ سے ایگزیکٹیو کمیٹی کا حصہ بننے سے انکار کیا لیکن میں تیار ہوں، عوام اور اپنی پارٹی کی خدمات کے لیے۔ کانگریس کو مدد کرنا ثواب کی بات ہے نہیں تو بی جے پی والے نفرت پھیلائے گے۔‘‘ راہل گاندھی کی تعریف کرتے ہوئے سوز نے کہا: ’’راہل گاندھی کوئی غلط بات نہیں کرتا ہے۔ لوگوں سے کھلے دل سے ملتا ہے۔ جھوٹ نہیں بولتا ہے۔ اقلیتی قوموں کی اکثریت کانگریس کی طرف دیکھتی ہے۔ بھارت کو بٹوارا نہیں چاہیے۔ وزیر اعظم کو رام مندر کی فکر ہے پر غریب عوام کی فکر نہیں ہے۔ کانگریس صدر کا احترام میرا بیٹا سلمان اور میں بھی کرتا ہوں۔‘‘

سنہ 1999 میں سوز ہی وہ ایک (ووٹ) رکن پارلیمان تھے جس کی وجہ اس وقت کی واجپائی سرکار ووٹ آف کانفیڈنشن ہار گئی تھی۔ اُس وقت سوز این سی کی ٹکٹ پر پارلیمنٹ پہنچے تھے۔ اُس پل کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ’’17 اپریل1999 کو واجپائی سرکار میرے ووٹ سے گر گئی۔ میں نے سرکار نہیں گرائی، میں نے جموریت کے لیے ووٹ دیا۔ میں نے ایوان کو بتایا کہ میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی رائے سے اتفاق نہیں رکھتا ہوں۔ وہ عمر عبداللہ کو مرکز میں وزیر بنانا چاہتے تھے۔ میرا ووٹ نیشنل کانفرنس اور فاروق عبداللہ کے خلاف تھا اٹل بہاری واجپائی جی کے خلاف نہیں۔‘‘

مزید پڑھیں: LG Doesn’t Want Polls in JK, omar: منوج سنہا واحد شخص ہیں جو یہاں انتخابات نہیں چاہتے، عمر عبداللہ

سوز کا مزید کہنا تھا کہ ’’جب لالو پرساد نے چیخ چیخ کر کہا کہ سوز صاحب کی جے ہو، وہ میری زندگی کا بہترین دن ہے۔ انہوں (فاروق عبداللہ) نے مجھے اپنی جماعت سے نکلا۔ وہ جماعت اس کو ضرور سزا دیگی اور میں پھر یاد دلاتا ہوں کہ اُس وقت نیشنل کانفرنس کے 65 ممبران اسمبلی میں تھے، اور پارلیمنٹ میں میرے ووٹ ڈالنے کے بعد وہ سکڑ کر صرف 15 رہ گئے۔‘‘

یہ بھی پڑھیں: Elections in Kashmir: ’کرگل میں انتخابات ہوئے تو جموں کشمیر میں کیوں نہیں؟

جموں و کشمیر انتظامیہ کی جانب سے سرکاری ملازمین کو احتجاج اور مظاہرے کرنے پر پابندی عائد کرنے کے معاملے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’’ایل جی صاحب تھوڑے وقت کے لیے یہاں ہیں۔ اُن کو وہ فیصلے نہیں لینے چاہیے جس سے عوام میں انتشار پھیلے، یہ غلط فیصلہ ہے۔ یہاں ضرور انتخابات ہوں گے، یہاں ضرور عوامی حکومت قائم ہوگی۔ آپ کیوں ایسا کرتے ہیں جس سے لوگوں کے دلوں میں ملال ہوگا۔ احتجاج کرنا جمہوری طریقہ ہے۔‘‘

سینئر کانگریس لیڈر سیف الدین سوز کی ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خصوصی گفتگو

سرینگر (جموں و کشمیر) : ’’جب بھی انتخاب منعقد ہوکر عوامی حکومت معرض وجود میں آئے گی، وہ دفعہ 370بحال کرنے کی مکلف ہوگی۔ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو انہیں عوام کی عدالت میں اس کا جواب دینا ہوگا۔‘‘ ان باتوں کا اظہار سابق رکن پارلیمان اور انڈین نیشنل کانگریس کے سینئر لیڈر سیف الدین سوز نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ ایک خصوصی گفتگو کے دوران کیا۔

سیف الدین سوز نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا: ’’موجودہ دور کی سیاست میں اقدار کی کمی ہے۔ پہلے سیاستدان عوام کے ساتھ گھل مل جاتے تھے اور اُن کے مسائل ہل کرنے کے لیے پیش پیش رہتے تھے، تاہم آج کل ایسے چند ہی سیاستدان ہیں جو عوام کی بہبودی کے بارے میں سوچتے ہیں۔ سیاست میں مادیت پرستی کا عنصر شامل ہو گیا ہے، جس سے سیاسی اقدات میں حد درجہ کمی واقع ہوئی ہے۔‘‘

سنہ 2019 کے اگست مہینے کی پانچ تاریخ کو جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخی کیے جانے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سوز کا کہنا تھا کہ ’’کشمیر کے ماحول میں کھتاس پیدا ہو گئی ہے۔ ہمارے لیڈران نے بھارت کے ساتھ الحاق چند شرطوں پر کیا تھا۔ لیکن مرکز نے جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ بڑی نا انصافی کی ہے، کرتے آ رہے ہیں، اور کر رہے ہیں۔‘‘ سوز نے دعویٰ کیا کہ ’’جواہر لعل نہرو (کے زمانے) سے لیکر اب تک (یہاں کے) لوگ (مرکز سے) ناراض ہیں۔ اس وقت کے حکمران بھی ہر روز کچھ ایسا کرتے ہیں جس سے جموں و کشمیر کے لوگوں کے دل آزردہ ہو جاتے ہیں۔‘‘

سوز کا مزید کہنا تھا کہ ’’وزیر اعظم اور وزیر داخلہ خوشی مناتے ہیں کہ اُنہوں نے دفعہ 370 کو منسوخ کر دیا، یہ لوگ اپنی اس خوشی کو جموں و کشمیر کے لوگوں پر تھوپنا چاہتے ہیں، جو غلط ہے۔ ہمارے احساسات اور ہماری خواہشات اپنے ہیں اور آپ اُن خواہشات کو بدل نہیں سکتے۔ مرکزی سرکار غلط راستے پر ہے۔ بی جے پی کے لوگ کہتے رہتے ہیں کہ ’دفعہ 370 خراب تھا‘ لیکن جموں و کشمیر کی عوام اُن کا ساتھ نہیں دیتی ہے۔ دفعہ 370 ہماری داخلی خود مختاری کا عنوان تھا۔ اور اس کے لیے جد و جہد جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گی۔‘‘ سیف الدین سوز نے دفعہ 370کو بحال کرنے کے حوالہ سے جاری جد و جہد کے حوالہ سے کہا: ’’ یہ نسل بھی لڑتی رہی ہے اور آنے والی نسل بھی جدو جہد جاری رکھے گی۔‘‘

جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات نہ کرائے جانے کی وجہ پر بات کرتے ہوئے سوز نے کہا کہ مرکزی سرکار انتخابات سے اپنا دامن بچانے کی کوشش میں ہے۔ سیف الدین سوز کے مطابق ’’مرکزی سرکار کو ڈر ہے کہ انہیں یہاں کیا میلے گا؟ کشمیر میں ایک سیٹ نہیں مل سکتی ہے بی جے پی کو، چاہئے وہ کروڑوں روپے ہی خرچ کر لے۔ جموں میں کیا ملے گا؟ یہاں بڑی پارٹی کانگریس ہے، نیشنل کانفرنس ہے اور دیگر مقامی جماعتیں ہیں۔ انتخابات میں وہ (غیر بی جے پی پارٹیز) اپنا حصہ لیں گی لیکن بی جے پی کو کچھ نہیں ملے گا۔‘‘

کانگریس کے اندرونی معاملات پر بات کرنے سے پرہیز کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’’وقار رسول کو موقع ملا ہے اور اُن کو اچھے سے کام کرنا چاہیے۔ کرن سنگھ نے عمر پیری کی وجہ سے ایگزیکٹیو کمیٹی کا حصہ بننے سے انکار کیا لیکن میں تیار ہوں، عوام اور اپنی پارٹی کی خدمات کے لیے۔ کانگریس کو مدد کرنا ثواب کی بات ہے نہیں تو بی جے پی والے نفرت پھیلائے گے۔‘‘ راہل گاندھی کی تعریف کرتے ہوئے سوز نے کہا: ’’راہل گاندھی کوئی غلط بات نہیں کرتا ہے۔ لوگوں سے کھلے دل سے ملتا ہے۔ جھوٹ نہیں بولتا ہے۔ اقلیتی قوموں کی اکثریت کانگریس کی طرف دیکھتی ہے۔ بھارت کو بٹوارا نہیں چاہیے۔ وزیر اعظم کو رام مندر کی فکر ہے پر غریب عوام کی فکر نہیں ہے۔ کانگریس صدر کا احترام میرا بیٹا سلمان اور میں بھی کرتا ہوں۔‘‘

سنہ 1999 میں سوز ہی وہ ایک (ووٹ) رکن پارلیمان تھے جس کی وجہ اس وقت کی واجپائی سرکار ووٹ آف کانفیڈنشن ہار گئی تھی۔ اُس وقت سوز این سی کی ٹکٹ پر پارلیمنٹ پہنچے تھے۔ اُس پل کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ’’17 اپریل1999 کو واجپائی سرکار میرے ووٹ سے گر گئی۔ میں نے سرکار نہیں گرائی، میں نے جموریت کے لیے ووٹ دیا۔ میں نے ایوان کو بتایا کہ میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی رائے سے اتفاق نہیں رکھتا ہوں۔ وہ عمر عبداللہ کو مرکز میں وزیر بنانا چاہتے تھے۔ میرا ووٹ نیشنل کانفرنس اور فاروق عبداللہ کے خلاف تھا اٹل بہاری واجپائی جی کے خلاف نہیں۔‘‘

مزید پڑھیں: LG Doesn’t Want Polls in JK, omar: منوج سنہا واحد شخص ہیں جو یہاں انتخابات نہیں چاہتے، عمر عبداللہ

سوز کا مزید کہنا تھا کہ ’’جب لالو پرساد نے چیخ چیخ کر کہا کہ سوز صاحب کی جے ہو، وہ میری زندگی کا بہترین دن ہے۔ انہوں (فاروق عبداللہ) نے مجھے اپنی جماعت سے نکلا۔ وہ جماعت اس کو ضرور سزا دیگی اور میں پھر یاد دلاتا ہوں کہ اُس وقت نیشنل کانفرنس کے 65 ممبران اسمبلی میں تھے، اور پارلیمنٹ میں میرے ووٹ ڈالنے کے بعد وہ سکڑ کر صرف 15 رہ گئے۔‘‘

یہ بھی پڑھیں: Elections in Kashmir: ’کرگل میں انتخابات ہوئے تو جموں کشمیر میں کیوں نہیں؟

جموں و کشمیر انتظامیہ کی جانب سے سرکاری ملازمین کو احتجاج اور مظاہرے کرنے پر پابندی عائد کرنے کے معاملے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’’ایل جی صاحب تھوڑے وقت کے لیے یہاں ہیں۔ اُن کو وہ فیصلے نہیں لینے چاہیے جس سے عوام میں انتشار پھیلے، یہ غلط فیصلہ ہے۔ یہاں ضرور انتخابات ہوں گے، یہاں ضرور عوامی حکومت قائم ہوگی۔ آپ کیوں ایسا کرتے ہیں جس سے لوگوں کے دلوں میں ملال ہوگا۔ احتجاج کرنا جمہوری طریقہ ہے۔‘‘

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.