پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کے رہنما اور جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد نے آج راجیہ سبھا میں جموں و کشمیر کیڈر کو اے جی ایم یو ٹی میں ضم کرنے کے حکومتِ ہند کے فیصلے پر تنقید کی اور ریاستی درجہ بحال کرنے کی حکومت کی منشا پر سوال اٹھائے ہیں۔
انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ جب 2019 میں دفعہ 370 کو منسوخ کیا گیا، اُس وقت بتایا گیا تھا کہ جموں و کشمیر کو عارضی طور پر مرکزی علاقہ بنایا گیا ہے اور کچھ وقت بعد اس کا ریاستی درجہ بحال کیا جائے گا لیکن اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت جموں و کشمیر کو ہمیشہ کے لئے ایک وفاقی علاقہ رکھنے کی خواہشمند ہے۔
آزاد نے کہا کہ جب سے مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کیڈر کو اے یو جی ایم ٹی میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تب سے شبہات پیدا ہوئے ہیں کہ حکومت جموں و کشمیر کو ایک مرکزی زیر انتظام علاقہ ہی بنائے رکھے گی۔
انہوں نے کہا کہ اگر مرکزی حکومت کی منشا ریاستی درجہ بحال کرنے کی ہوتی تو ریاستی کیڈر کو ختم نہیں کیا جاتا۔
یہ بھی پڑھیں: راجیہ سبھا میں جموں و کشمیر تنظیم نو (ترمیمی) بل منظور
انہوں نے اس موقع پر دیگر امور پر بھی بات کی۔
آزاد نے کہا کہ جب سے جموں و کشمیر کو یونین ٹیریٹری بنایا گیا ہے تب سے خطہ میں بے روزگاری عروج پر ہے۔ اس کے علاوہ صنعتی صورتحال بھی ابتر ہو گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو برس میں جموں و کشمیر میں کم و بیش 7107 صنعتی یونٹ بند ہوگئے ہیں۔
موصوف نے کہا کہ ترقی کے نام پر صرف کاغذی گھوڑے دوڑائے جا رہے ہیں۔
انہوں نے سرحد پر موجودہ صورتحال پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد دراندازی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جبکہ حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد حالات بہتر ہوں گے۔
آزاد نے کہا کہ حکومت نے جو وعدے اس وقت کئے تھے، وہ زمینی سطح پر کئی موجود نہیں ہے۔