سرینگر: کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے بدھ کے روز جیلوں میں بند صحافیوں کی سالانہ میں دعویٰ کیا ہے کہ یکم دسمبر تک بھارت میں سات صحافیوں کو حکام نے مختلف مقدمات کے تحت جیل میں بند کر دیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان سات صحافیوں میں تین صحافی ایک سال سے زائد عرصے سے جیل میں بند ہیں۔CPJ's Annual Prison Reports 2022
کمیٹی کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر میں پبلک سیفٹی ایکٹ کے استعمال سے جن صحافیوں کو قید کر دیا گیا ہے ان میں آصف سلطان، فہد شاہ اور سجاد گُل شامہل ہیں جنہیں حکام نے مختلف کیسوں کے تحت جیل میں رکھا ہیں۔ان تین صحافیوں کے علاوہ دوسرے صحافی جنہیں یکم دسمبر تک جیل بھیج دیا گیا، ان میں منان ڈار، گوتم نولکھا، روپیش کمار سنگھ اور صدیق کپن شامل ہیں۔Kashmiri Journalist in Jails
بتادیں کہ جموں و کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ حکام کو اجازت دیتا ہے کہ وہ افراد کو بغیر کسی مقدمے کے دو سال تک حراست میں رکھ سکیں تاکہ انہیں کسی بھی ایسے طریقے سے کام کرنے سے روکا جا سکے جو "ریاست کی سلامتی یا امن عامہ کی بحالی" کے لیے نقصان دہ ہو۔PSA on Kashmiri journalist
آصف سلطان، "کشمیر نریٹر" کا ایک رپورٹر
سلطان کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سالانہ رپورٹ میں درج سات صحافیوں میں سب سے طویل عرصے تک جیل میں رہا۔ سلطان کو اگست 2018 میں گرفتار کیا گیا تھا جب پولیس نے الزام لگایا تھا کہ وہ کالعدم عسکریت پسند تنظیم حزب المجاہدین کے لیے کام کرتا تھا۔ امسال 5 اپریل کو سلطان کو عدالت نے سے یہ کہتے ہوئے ضمانت دی کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیںملا ہے۔ تاہم اس کے بعد پولیس نے سلطان کو جموں و کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں لے لیا تاکہ اس کی حراست کو طول دیا جا سکے۔
شاہ کو متعدد الزامات کا سامنا ہے، جن میں غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ، جموں و کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ اور تعزیرات ہند کی دفعات شامل ہیں۔ انہیں پہلی بار 4 فروری کو پلوامہ پولیس اسٹیشن نے سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر ملک مخالف مواد پوسٹ کرنے پر گرفتار کیا تھا۔ اسے دو بار ضمانت ملی لیکن پولیس نے ہر بار انہیں نئے الزامات کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔ اسے آخری بار دسمبر میں ضمانت ملی تھی لیکن ان کے خلاف ایک مقدمہ زیر التوا ہے۔
سجاد گُل: اسے پہلی بار 6 جنوری کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب اس نے لشکر طیبہ کے کمانڈر سلیم پرے کے اہل خانہ اور رشتہ داروں کی ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں ان کی فائرنگ سے ہلاکت کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ اگرچہ اسے نو دن کی حراست میں رہنے کے بعد ضمانت مل گئی تھی، لیکن دی کشمیر والا کے رپورٹر گل پر ایک پرانے کیس کے سلسلے میں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ جموں و کشمیر انتظامیہکے مطابق گل کے خلاف حفاظتی قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا کیونکہ اسے ضمانت مل سکتی تھی۔
منان ڈار: وہ ایک فوٹو جرنلسٹ ہے جسے گزشتہ سال اکتوبر میں سات دیگر افراد کے ساتھ نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے گرفتار کیا تھا ۔ ان پر "مختلف کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے کارندے" ہونے کا الزام لگایا گیا۔ ڈار کو جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی کی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی کرنے کے الزام میں یو اے پی اے کے تحت مقدمے میں پہلے ہی حراست میں رکھا گیا ہے۔
گوتم نولکھا: ایک کالم نگار اور کارکن، نوالکھا ان 16 افراد میں سے ایک ہیں جنہیں بھیما کوری گاؤں تشدد کیس کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا ہے۔انہیں 'ایلگار پریشد' کے کنونشن میں مبینہ طور پر اشتعال انگیز تقریر کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ پونے پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ کانفرنس کو ماؤنوازوں کی حمایت حاصل تھی۔70 سالہ سماجی کارکن گوتم نولکھا بھیما-کورےگاؤں کیس میں 2020 سے جیل میں تھےااور انہیں سپریم کورٹ نے گھر میں نظر بند کرنے کے حکم کے بعد رہا کر دیا گیا۔
روپیش کمار سنگھ: ایک آزاد صحافی سنگھ کو جولائی میں جھارکھنڈ پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ ان پر الزام ہے کہ وہ ماؤنوازوں کے لیے فنڈز کا بندوبست کرتا تھا۔ سنگھ سات سالوں سے آدیواسی برادریوں کے خلاف ریاستی تشدد کی رپورٹنگ کر رہے تھے۔ وہ ان 40 بھرتی صحافیوں میں بھی شامل تھے جن کے فون نمبرز ایک لیک شدہ ڈیٹا بیس میں ظاہر ہوئے، جو پیگاسس ہیکنگ سافٹ ویئر کے استعمال کے ذریعے سائبر نگرانی کے ممکنہ اہداف کی عکاسی کرتا ہے جسے ایک اسرائیلی کمپنی صرف حکومتوں کو فروخت کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔
صدیق کپن: کیرالہ میں مقیم ایک صحافی کپن کو 5 اکتوبر 2020 کو تین دیگر افراد کے ساتھ اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ ہاتھرس جا رہے تھے جہاں ایک دلت لڑکی کو چار اونچی ذات کے افراد نے اجتماعی عصمت دری اور قتل کر دیا۔ پولیس نے پہلے کپن پر ذات پات کی بنیاد پر فساد شروع کرنے اور فرقہ وارانہ انتشار پیدا کرنے کا الزام لگایا۔ اس کے بعد غداری کے الزامات اور یو اے پی اے کی دفعات شامل کی گئیں۔ فروری 2021 میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے ان کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کیا۔
دریں اثنا، کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ یکم دسمبر تک دنیا بھر میں 363 صحافی قید میں بند ہیں۔ یہ تعداد 2021 میں پریس باڈی کی تعداد سے 23 فیصد زیادہ ہے جب یہ 293 تھی۔ رپورٹ کے مطابق یہ مسلسل ساتواں سال ہے جب قید صحافیوں کی تعداد 250 سے زیادہ ہے۔CPJ's Annual Prison Reports 2022
مزید پڑھیں: Year Ender 2021 Jailed Journalists: دنیا بھر میں سال 2021 صحافیوں کے لیے قید خانہ ثابت ہوا