وادی کشمیر میں کورونا وائرس لاک ڈاؤن ختم ہونے کے ساتھ ہی اگرچہ کاروباری اور دیگر قسم کی سرگرمیاں شروع ہوگئی ہیں لیکن سیاحت شعبہ کے ساتھ ساتھ فوڈ اینڈ ریسٹورنٹ انڈسٹری سے وابستہ لوگ اپنا کاروبار ابھی شروع نہیں کر پا رہے ہیں۔
شہر سرینگر میں اب بھی کئی سارے ریستوران بند پڑے ہیں تاہم جو بھی کم تعداد میں کھلے رہے ہیں ان کے پاس کام نا کے برابر ہے۔ ریستوران میں کام کررہے ملازمین صبح سے لے کر شام تک صارفین کی راہ تکتے رہتے ہیں ۔
ریستوران کا مالکان کہنا ہے کہ اگرچہ انتظامیہ اور صحت ماہرین کی جانب سے وضح کیے گئے رہنما خطوط کا خاص خیال رکھے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی صارفین ریستوران میں کھانا کھانے سے پرہیز کر رہے ہیں ۔
ادھر کشمیر وادی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ کورونا وائرس کے معاملات میں ہوش ربا اضافہ دیکھا جارہا ہے وہیں اس مہلک وائرس سے مرنے والوں کی تعداد بھی آئے روز بڑھتی جا رہی ہے ۔
ریستوران میں کام کر رہے افراد کا کہنا ہے کہ اس صورتحال کے پیش نظر اکثر لوگ یہاں آئے انے سے کتراتے ہیں اور وہ گھر کے کھانے کو ہی ترجیحی دے رہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پلاسٹک کی بوٹلوں سے بنایا گیا دلکش عمودی باغ
ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ انڈسٹری سے یہاں کے لاکھوں لوگ بلواسطہ یا بلاواسطہ طور وابستہ ہیں۔دیگر شعبہ جات کے ساتھ ساتھ اس شعبے کو بھی کروڑوں کا خسارے کا ہوچکا ہے۔ رستوران مالکان کا کہنا ہے کہ کام نہ ہونے کی وجہ سے وہ اب بھی دن بھر ہاتھ پر ہاتھ بھیٹے ہوتے ہیں ۔انہوں نے سرکاری سے مطالبہ کیا ہے انہیں بھی مالی معاوضہ دیا جائے ۔
حال ہی میں جموں وکشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے کاروباری اور تجارتی سیکٹر کی بحالی کے حوالے سے پہلی شروعات کے طور 1350کروڑ روپے کے مالی پکیج کا اعلان کیا ہے ۔جس کی بدولت اب کاروباری برادری میں ایک امید کی کرن جاگ گئ ہے ۔وہیں ریسٹورنٹ انڈسٹری سے وابستہ لوگوں بھی پر امید ہیں کہ انہں بھی کچھ حد تک راحت ملے گی۔