ETV Bharat / state

پاکستان سے بات چیت سے کشمیریوں کو سکون ملتا ہے: محبوبہ مفتی

وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ میٹنگ کے بعد پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے کہا کہ 'بھارت اور پاکستان کے مابین بات چیت ہوتی ہے تو کشمیریوں کو سکون ملتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے آرٹیکل 370 کو غیر آئینی طریقے سے ہٹایا ہے۔

محبوبہ مفتی
محبوبہ مفتی
author img

By

Published : Jun 24, 2021, 9:43 PM IST

Updated : Jun 24, 2021, 9:58 PM IST

محبوبہ مفتی نے ایک بار پھر آرٹیکل 370 کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ حکومت نے غیر آئینی طریقے سے جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کیا ہے۔

محبوبہ مفتی نے کہا کہ 'بھارتی حکومت کو پاکستان سے بات کرنی چاہیے۔ ان کا خیال ہے کہ جب پاکستان کے ساتھ بات چیت ہوتی ہے تو کشمیریوں کو سکون ملتا ہے۔

محبوبہ مفتی

وزیر اعظم سے میٹنگ سے قبل محبوبہ مفتی کا جو موقف تھا میٹنگ کے بعد بھی انہوں نے وہی کہا۔ میڈیا سے گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت نے غیر آئینی طریقے سے آرٹیکل 370 کو ہٹایا ہے۔ اس وقت کسی بھی نمائندے سے بات نہیں کی گئی تھی۔ صرف ایک ہی جھٹکے میں جموں و کشمیر سے اس کی طاقت چھین لی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ '5 اگست 2019 کے بعد سے جموں و کشمیر کے عوام پریشان ہیں۔ اس لیے ان کی مدد کی جائے۔ آرٹیکل 370 ہمارے روزگار اور اراضی کے حق کو یقینی بناتا ہے، ہمیں اس کے ساتھ کوئی سمجھوتہ منظور نہیں ہے۔ ہم جمہوری اور پُرامن طریقے سے احتجاج جاری رکھیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: نریندر مودی سے میٹنگ کے بعد عمر عبداللہ نے کیا کہا

واضح رہے کہ اس سے قبل 19 جون کو 14 سیاسی رہنماؤں کو وزیراعظم کی جانب سے میٹنگ کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ ان رہنماؤں کا تعلق 8 سیاسی جماعتوں- نیشنل کانفرنس(این سی)، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی( پی ڈی پی)، بھارتیہ جنتا پارٹی( بی جے پی)، کانگریس، جموں و کشمیر اپنی پارٹی، سی پی آئی (ایم)، پیپلز کانفرنس اور پینتھرس پارٹی سے ہے۔

انہیں مرکزی داخلہ سکریٹری اجے بھلا نے میٹنگ میں شرکت کے لیے 19 جون کو ٹیلیفون کے ذریعے کہا تھا۔ بعد میں انہیں باضابطہ دعوت نامے بھی روانہ کئے گئے۔ سبھی رہنماؤں نے کسی شرط کے بغیر اجلاس میں شرکت کی حامی بھری ہے۔ ان سیاسی رہنماؤں کا تعلق کشمیر اور جموں خطوں کے ساتھ ہے۔

جموں و کشمیر بالخصوص کشمیر صوبے میں مضبوط پکڑ رکھنے والی سیاسی جماعتوں نے واضح کیا تھا کہ وزیراعظم کے ساتھ دفعہ 370 کی بحالی اور سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ لداخ کے کسی بھی رہنما کو اجلاس میں شرکت کے لیے مدعو نہیں کیا گیا جو اس بات کا اشارہ ہے کہ سابقہ ریاست کی تقسیم کے حتمی ہونے پر مرکزی حکومت کوئی بات کرنا نہیں چاہتی حالانکہ کشمیر کے سیاسی رہنما چاہتے ہیں کہ ریاست کو دوبارہ متحد کرنے کے معاملے پر بات کی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: All Party Meeting: آل پارٹی میٹنگ کے اہم نکات

مرکز کا اچانک اقدام بین الاقوامی برادری خاص طور پر ریاستہائے متحدہ امریکہ کی جانب سے ان بیانات کے پس منظر میں آئے ہیں جن میں بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ جموں و کشمیر میں جمہوری اور انتخابی عمل کو بحال کرے۔ خطہ سنہ 2018 کے بعد سے مرکز کی حکمرانی میں ہے۔

جموں و کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کی 5 اگست 2019 کے بعد وزیراعظم کے ساتھ یہ پہلی ملاقات تھی جب مرکز نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی اور اسے دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔

محبوبہ مفتی نے ایک بار پھر آرٹیکل 370 کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ حکومت نے غیر آئینی طریقے سے جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کیا ہے۔

محبوبہ مفتی نے کہا کہ 'بھارتی حکومت کو پاکستان سے بات کرنی چاہیے۔ ان کا خیال ہے کہ جب پاکستان کے ساتھ بات چیت ہوتی ہے تو کشمیریوں کو سکون ملتا ہے۔

محبوبہ مفتی

وزیر اعظم سے میٹنگ سے قبل محبوبہ مفتی کا جو موقف تھا میٹنگ کے بعد بھی انہوں نے وہی کہا۔ میڈیا سے گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت نے غیر آئینی طریقے سے آرٹیکل 370 کو ہٹایا ہے۔ اس وقت کسی بھی نمائندے سے بات نہیں کی گئی تھی۔ صرف ایک ہی جھٹکے میں جموں و کشمیر سے اس کی طاقت چھین لی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ '5 اگست 2019 کے بعد سے جموں و کشمیر کے عوام پریشان ہیں۔ اس لیے ان کی مدد کی جائے۔ آرٹیکل 370 ہمارے روزگار اور اراضی کے حق کو یقینی بناتا ہے، ہمیں اس کے ساتھ کوئی سمجھوتہ منظور نہیں ہے۔ ہم جمہوری اور پُرامن طریقے سے احتجاج جاری رکھیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: نریندر مودی سے میٹنگ کے بعد عمر عبداللہ نے کیا کہا

واضح رہے کہ اس سے قبل 19 جون کو 14 سیاسی رہنماؤں کو وزیراعظم کی جانب سے میٹنگ کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ ان رہنماؤں کا تعلق 8 سیاسی جماعتوں- نیشنل کانفرنس(این سی)، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی( پی ڈی پی)، بھارتیہ جنتا پارٹی( بی جے پی)، کانگریس، جموں و کشمیر اپنی پارٹی، سی پی آئی (ایم)، پیپلز کانفرنس اور پینتھرس پارٹی سے ہے۔

انہیں مرکزی داخلہ سکریٹری اجے بھلا نے میٹنگ میں شرکت کے لیے 19 جون کو ٹیلیفون کے ذریعے کہا تھا۔ بعد میں انہیں باضابطہ دعوت نامے بھی روانہ کئے گئے۔ سبھی رہنماؤں نے کسی شرط کے بغیر اجلاس میں شرکت کی حامی بھری ہے۔ ان سیاسی رہنماؤں کا تعلق کشمیر اور جموں خطوں کے ساتھ ہے۔

جموں و کشمیر بالخصوص کشمیر صوبے میں مضبوط پکڑ رکھنے والی سیاسی جماعتوں نے واضح کیا تھا کہ وزیراعظم کے ساتھ دفعہ 370 کی بحالی اور سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ لداخ کے کسی بھی رہنما کو اجلاس میں شرکت کے لیے مدعو نہیں کیا گیا جو اس بات کا اشارہ ہے کہ سابقہ ریاست کی تقسیم کے حتمی ہونے پر مرکزی حکومت کوئی بات کرنا نہیں چاہتی حالانکہ کشمیر کے سیاسی رہنما چاہتے ہیں کہ ریاست کو دوبارہ متحد کرنے کے معاملے پر بات کی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: All Party Meeting: آل پارٹی میٹنگ کے اہم نکات

مرکز کا اچانک اقدام بین الاقوامی برادری خاص طور پر ریاستہائے متحدہ امریکہ کی جانب سے ان بیانات کے پس منظر میں آئے ہیں جن میں بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ جموں و کشمیر میں جمہوری اور انتخابی عمل کو بحال کرے۔ خطہ سنہ 2018 کے بعد سے مرکز کی حکمرانی میں ہے۔

جموں و کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کی 5 اگست 2019 کے بعد وزیراعظم کے ساتھ یہ پہلی ملاقات تھی جب مرکز نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی اور اسے دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔

Last Updated : Jun 24, 2021, 9:58 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.