نیشنل کانفرس کے معاون جنرل سیکرٹری شیخ مصطفی کمال نے وادی کشمیر میں مزید 5 ہزار اضافی سکیورٹی فورسز کی تعیناتی پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ مرکزی حکومت اور مقامی انتظامیہ یہاں امن و امان اور تعمیر وترقی کے دعوے کرتے نہیں تھکتے ہیں لیکن دوسری جانب آئے روز فورسز کی تعداد میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''اگر واقعی کشمیر میں امن وامان قائم ہے تو پھر ان اضافی فورسز کی تعیناتی کا کیا مقصد ہے؟''
شیخ مصطفی کمال نے کہا کہ اطلاعات کے مطابق سرینگر میں مختلف مقامات پر کمیونٹی ہالوں کو سکیورٹی فورسز نے اپنی تحویل میں لیا، جبکہ اس سے قبل تمام شاہراوں اور گلی کوچوں میں نئے بنکر تعمیر کیے گئے ہیں جو کہ تشویش کی بات ہے۔
این سی کے معاون جنرل سیکرٹری نے کہا کہ فورسز کی موجودہ سرگرمیوں سے 1990 کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ اس وقت بھی ایسے ہی سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی عمل میں لائی گئی تھی جس کے بعد ہر سو افراتفری، قتل و غارت اور خونریزی کا ایک بدترین سلسلہ چل پڑا اور کشمیر کا ہر ایک گھر متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
مزید پڑھیں:
انہوں نے کہا کہ مرکزی وزرا اور ان کے افسران گذشتہ ماہ سے وادی کشمیر کا دورہ کر کے دعوی کررہے ہیں کہ یہاں امن و امان ہے اور لوگ کھلی فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ وہیں ان کے بقول ''اگر یہاں امن و سکون ہے تو فورسز کی مزید تعیناتی کیا معنی رکھتی ہے؟''