ETV Bharat / state

افسران سوشل میڈیا سے اپنے پرانے پوسٹس ڈیلیٹ کیوں کر رہے ہیں؟ - وادی کشمیر

جموں و کشمیر پولیس نے گذشتہ دنوں سے وادی کشمیر میں کام کرنے والے کئی صحافیوں پر ایف آئی آر کے علاوہ یو اے پی اے کے تحت مقدمات درج کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔

افسران سوشل میڈیا سے اپنے پرانے پوسٹس ڈیلیٹ کیوں کر رہے ہیں
افسران سوشل میڈیا سے اپنے پرانے پوسٹس ڈیلیٹ کیوں کر رہے ہیں
author img

By

Published : Apr 22, 2020, 9:24 PM IST

پولیس کی سائبر ونگ نے جواں سال فوٹو جرنسلٹ مسرت زہرہ کے بعد دی ہندو کے کشمیر نمائندے پیر زادہ عاشق کے علاوہ گزشتہ روز وادی کے ایک اور معروف صحافی گوہر گیلانی کے خلاف بھی کیس درج کر لیا ہے ۔

پولیس کے مطابق ان تینوں صحافیوں پر سماجی رابطہ گاہوں پر اپنی تحریروں اورپوسٹوں کے ذریعےغیر قانونی سرگرمیوں کو شہہ دینے اور ملکی سالمیت کو زک پہنچانے کا الزام عائد ہے۔

وہیں اب گزشتہ دنوں سے صحافیوں پر اس طرح کے الزمات عائد کرنے کے بعد انتظامیہ میں بھی بڑے عہدوں پر فائز کئی افسران اور دیگر سرکاری ملازمین نے بھی کئی سال پہلے اپنے فیس بک ،ٹویٹر اکاؤنٹ اور دیگر سماجی رابطہ گاہوں سے اپنے پرانے پوسٹس اور تحریریں ڈیلیٹ یا حذف کرنا شروع کئے ہیں۔اظہار رائے اور جمہوری حقوق کے مدنظر جن افسران نے کئی سال قبل اپنے طور ملک کے سیاسی ،سماجی یا کسی اقتصادی معاملے پر اپنی رائے زنی کی تھی یا اس وقت کی حکومت یا کسی سیاسی شخص کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا وہ اپنے ان پوسٹ کو ڈیلیٹ کر رہے ہیں ۔تاکہ ان کے خود کے اوپر کسی قسم کی کوئی آنچ نہ آپائے۔

یو ٹی جموں وکشمیر میں پولیس محکمے کے ساتھ ساتھ سول انتظامیہ میں افسران کے سماجی رابط گاہوں کے اکاونٹس میں کھل بلی کا یہ منظر اُس پس منظر دیکھنےکو مل رہا ہے جس کی بنیاد پر گزشتہ دنوں سے تین صحافیوں کو غیر قانونی سرگرمیوں والے پوسٹس اپ لوڈ کرنے کی پاداش میں یو اے پی اے کے تحت مقدمات درج کئے گئے ہیں ۔

وادی میں جن صحافیوں پر ملک دشمن تحریریں سوشل میڈیا کے زریعے پوسٹ کرنے پر ایف آئی آر درج کئے جاچکے ہیں۔

ادھر اب مزکورہ صحافیوں نے پولیس اور سول افسران کے اُسی نوعیت کی تحریروں اور پوسٹ کو سامنے لایا ہے ۔ وہیں ان کے ٹویٹ اور ری ٹویٹ بھی منظر عام پر لائیے ہیں۔

ایسےمیں یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن پوسٹ کو بنیاد بنا کرپولیس صحافیوں پرکاروائی کرنےجارہی ہے کیا اس طرح کی کاروائی اب سرکاری افسران پر عائد ہوگی؟

پولیس کی سائبر ونگ نے جواں سال فوٹو جرنسلٹ مسرت زہرہ کے بعد دی ہندو کے کشمیر نمائندے پیر زادہ عاشق کے علاوہ گزشتہ روز وادی کے ایک اور معروف صحافی گوہر گیلانی کے خلاف بھی کیس درج کر لیا ہے ۔

پولیس کے مطابق ان تینوں صحافیوں پر سماجی رابطہ گاہوں پر اپنی تحریروں اورپوسٹوں کے ذریعےغیر قانونی سرگرمیوں کو شہہ دینے اور ملکی سالمیت کو زک پہنچانے کا الزام عائد ہے۔

وہیں اب گزشتہ دنوں سے صحافیوں پر اس طرح کے الزمات عائد کرنے کے بعد انتظامیہ میں بھی بڑے عہدوں پر فائز کئی افسران اور دیگر سرکاری ملازمین نے بھی کئی سال پہلے اپنے فیس بک ،ٹویٹر اکاؤنٹ اور دیگر سماجی رابطہ گاہوں سے اپنے پرانے پوسٹس اور تحریریں ڈیلیٹ یا حذف کرنا شروع کئے ہیں۔اظہار رائے اور جمہوری حقوق کے مدنظر جن افسران نے کئی سال قبل اپنے طور ملک کے سیاسی ،سماجی یا کسی اقتصادی معاملے پر اپنی رائے زنی کی تھی یا اس وقت کی حکومت یا کسی سیاسی شخص کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا وہ اپنے ان پوسٹ کو ڈیلیٹ کر رہے ہیں ۔تاکہ ان کے خود کے اوپر کسی قسم کی کوئی آنچ نہ آپائے۔

یو ٹی جموں وکشمیر میں پولیس محکمے کے ساتھ ساتھ سول انتظامیہ میں افسران کے سماجی رابط گاہوں کے اکاونٹس میں کھل بلی کا یہ منظر اُس پس منظر دیکھنےکو مل رہا ہے جس کی بنیاد پر گزشتہ دنوں سے تین صحافیوں کو غیر قانونی سرگرمیوں والے پوسٹس اپ لوڈ کرنے کی پاداش میں یو اے پی اے کے تحت مقدمات درج کئے گئے ہیں ۔

وادی میں جن صحافیوں پر ملک دشمن تحریریں سوشل میڈیا کے زریعے پوسٹ کرنے پر ایف آئی آر درج کئے جاچکے ہیں۔

ادھر اب مزکورہ صحافیوں نے پولیس اور سول افسران کے اُسی نوعیت کی تحریروں اور پوسٹ کو سامنے لایا ہے ۔ وہیں ان کے ٹویٹ اور ری ٹویٹ بھی منظر عام پر لائیے ہیں۔

ایسےمیں یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن پوسٹ کو بنیاد بنا کرپولیس صحافیوں پرکاروائی کرنےجارہی ہے کیا اس طرح کی کاروائی اب سرکاری افسران پر عائد ہوگی؟

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.