ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے وادی کے بی ڈی سی چئیرمین نے کہا کہ ترمیم شدہ ایکٹ میں ڈی ڈی سی کے قیام کی بنیاد رکھی گئی ہے تاہم اس نئے نظام میں بی ڈی سی چیئرپرسن کے حد اختیار یا احاطہ اور ان کا کیا رول ہوگا یہ واضح نہیں کیا گیا ہے۔
انہوں نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس معاملے پر نظر ثانی کرکے اس کی وضاحت کرے
واضح رہے کہ 17 اکتوبر کو مرکزی وزارت داخلہ نے جموں و کشمیر پنچایت راج ایکٹ میں ترمیم کرکے ضلع ترقیاتی کونسل قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ان کونسلز میں انتخابات کے ذریعے ممبران منتخب ہوں گے۔
اس سے قبل جموں کشمیر میں ضلع سطح پر پلاننگ کمیٹیاں تشکیل ہوتی تھی جن کی صدارت منتخب وزیر کرتے تھے اور ارکان اسمبلی کے علاوہ پنچایتی اور بلاک ڈیولپمنٹ کونسل کے ارکان ممبران ہوتے تھے۔نئے پنچایتی ایکٹ کے تحت اب ہر ضلع کو 14 انتخابی حلقوں میں آبادی کے لحاظ سے بانٹا جائے گا اور ہر حلقے سے ایک ممبر انتخابات کے ذریعے منتخب ہوگا۔
یاد رہے اس سے قبل جموں و کشمیر انتظامیہ نے خالی پنچایتی نشستوں میں انتخابات منعقد کروانے کا فیصلہ کیا ہے جس کی تیاریاں شدو مد سے جاری ہے۔
جموں و کشمیر میں سن 2018 کے ماہ نومبر میں پنچایتی انتخابات منعقد کئے گئے تھے جن میں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے شمولیت نہیں کی تھی۔
جموں و کشمیر: ضلع کونسلز انتخابات کے لیے اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل
سخت سیکورٹی کے تحت سنہ 2018 میں منعقدہ انتخابات میں 11639 پنچایتی حلقوں میں ووٹنگ یا امیدوار نہ ہونے کی وجہ سے خالی پڑے تھے۔ نشستوں میں ضلع بارہمولہ میں سب سے خالی پڑی ہیں جہاں 2163 وارڈز میں کوئی انتخاب نہ ہو پایا۔
وہیں اننت ناگ میں 1995، بڈگام میں 1940، پلوامہ میں 1437 خالی پنچایتی وارڈز ہیں۔ اس طرح وادی میں 923 سرپنچ نشستوں میں انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے وہاں اب دوبارہ ووٹنگ ہوگی۔
رواں برس کے فروری میں انتظامیہ نے اعلان کیا تھا کہ ان خالی نشستوں میں آٹھ مرحلوں میں 5 مارچ سے انتخابات منعقد ہوں گے لیکن سیکورٹی کے خطرات کے پیش نظر چیف الیکٹورل افسر نے انہیں ملتوی کیا تھا۔
وادی کشمیر میں پنچایتی ممبران کو سیکیورٹی کے خطرات لاحق ہونے کی وجہ سے سنہ 2018 سے 504 پنچوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا جن میں بیشتر جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ (129)، بڈگام سے (81)، بارہمولہ سے 67 اور کپواڑہ سے 61 ہیں- جبکہ بارہ سرپنچو نے ایسے ہی خطرات ہونے کے سسب استعفیٰ دیا تھا۔