سرینگر (جموں و کشمیر): مرکز کے زیر انتظام خطہ جموں و کشمیر کی گرمائی دارالحکومت سرینگر میں بھی بیک یارڈ مرغبانی کی جانب لوگوں کا رُجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ شیر کشمیر یونیورسٹی آف ایگریکلچر اینڈ ٹیکنالوجی (زرعی یونیورسٹی) کے شعبہ مرغبانی کے پولٹری سیڈ پروجیکٹ کو مانا جا رہا ہے جس کی وجہ سے اس صنعت کو کافی فروغ حاصل ہو رہا ہے۔
پولٹری سیڈ سے وابستہ سینئر سنسدان ڈاکٹر ذوالفقار الحق نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خصوصی گفتگو کے دوران کہا کہ ’’یہ پروجیکٹ انڈین کونسل آف ایگریکلچرل ریسرچ (آئی سی اے آر) کی جانب سے ملا۔ اس پروجیکٹ کے تحت کسانوں کو ’ون راج‘، ’گرام پریا‘ اور ’کیسٹون‘ اقسام کی مرغیاں / چوزے فراہم کرتے ہیں۔ یہ اقسام دیسی مرغیوں کے مقابلے میں زیادہ انڈے دیتی ہیں اور یہ چوزے جلدی بڑے بھی ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک منافع بخش پیشہ بن سکتا ہے۔‘‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ’’اب یہ مرغیاں لوگ اپنے گھروں میں بھی پال رہے ہیں۔ اس کے لیے اُن کو بس ہم سے رجوع کرنا ہوتا ہے جس کے بعد محکمہ کی جانب سے اُن کو چوزے فراہم کیے جاتے ہیں، وہ بھی بغیر کسی کاغذی کارروائی کے۔‘‘ ان مرغوں کو کمرشل سطح پر فروغ دینے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کے بارے میں جانکاری فراہم کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ہم اب مرغیاں سیب اور دیگر باغات کے مالکان کو بھی فراہم کرتے ہیں۔ وہ ان چوزوں کو اپنے باغات میں پالتے ہیں جس سے فصل بھی اچھی ہوتی ہے اور منافع بھی حاصل ہوتا ہے، اور ان پر خرچہ بھی انتہائی کم ہوتا ہے۔‘‘
مزید پڑھیں: Poultry Farm Foreign Breed Chickens راحل مشتاق غیر ملکی نسل کی مرغوں کا پالٹری فارم قائم کرنے والا نوجوان
ڈاکٹر ذو الفقار الحق نے مزید کہا کہ ’’ون راج مرغی سال میں 180 انڈے دیتی ہے جب کہ دیسی مرغی صرف 80 انڈے دیتی ہے جس سے مرغبانی سے وابستہ افراد کے لیے منافع بھی بڑھ جاتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اس پروجیکٹ کے حوالہ سے مزید تحقیق جاری ہے۔