سرینگر (جموں و کشمیر): جموں و کشمیر پولیس نے ممنوعہ علیٰحدگی پسند تنظیم جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے تین درجن سے زائد ارکان کو سرینگر شہر کے مرکز میں واقع ایک معروف ریستوراں سے ’’ویریفیکیشن‘‘ کے لیے حراست میں لے لیا ہے۔ سرینگر پولیس نے اس پیش رفت کے بعد ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’’سرینگر کے ایک ہوٹل میں جے کے ایل ایف کے کچھ سابق عسکریت پسندوں اور سابق علیحدگی پسندوں کی ایک میٹنگ کے بارے میں مصدقہ اطلاعات کی بنیاد پر تلاشی لی گئی۔ تلاشی کے دوران ان سابق عسکریت پسندوں کو تصدیق کے لیے کوٹھی باغ پولیس اسٹیشن لایا گیا۔ انکوائری شروع کر دی گئی، پہلی نظر میں یہ بات سامنے آئی کہ وہ جے کے ایل ایف اور حریت کانفرنس کو دوبارہ زندہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔‘‘
پیر کے روز پولیس نے کہا کہ وہ ابھی بھی ریستوران میں جمع ہونے سے متعلق حقائق کی تصدیق کر رہے ہیں۔ ایک سینئر پولیس افسر نے، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ’’گزشتہ روز، ہمیں یہ اطلاع ملی تھی کہ کچھ لوگ اجتماع کی آڑ میں کشمیر میں علیحدگی پسند تحریک کو دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تقریب کا اہتمام حریت کانفرنس (گ) سے وابستہ ڈیموکریٹک پولیٹیکل موومنٹ (ڈی پی ایم) نے کیا تھا۔ کوٹھی باغ پولیس اسٹیشن کے پولیس اہلکاروں کی ایک ٹیم نے چھاپہ مارا اور تصدیق کے لیے تین درجن سے زیادہ افراد کو حراست میں لے لیا۔ تفتیش ابھی جاری ہے۔ ‘‘
افسر نے مزید کہا کہ ’’جن افراد کو گرفتار کیا گیا ہے ان کا تعلق ڈی پی ایم، اتحاد المسلمین اور جے کے ایل ایف سے ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں مولانا مسرور عباس انصاری، مولانا سعید الرحمن شمس، فردوس احمد شاہ، محمد رفیق پہلو اور محمد یاسین بٹ نمایاں ہیں۔‘‘ معاملے اور افراد کی رہائی کے بارے میں پوچھے جانے پر، افسر نے کہا، ’’سوال جواب ابھی جاری ہے، تصدیق مکمل ہونے کے بعد متعلقہ دفعات کے تحت معاملہ درج کیا جائے گا اور جو بھی کارروائی ضروری ہوگی وہ انجام دی جائے گی۔‘‘
مزید پڑھیں: کشتواڑ: بارہ برسوں سے فرار سابق عسکریت پسند گرفتار
دریں اثناء، اتحاد المسلمین کے ترجمان نے بھی ایک بیان میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان کے چیئرمین مسرور انصاری کو گزشتہ روز کچھ دیگر افراد کے ساتھ حراست میں لیا گیا تھا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ مسرور انصاری کے والد مولانا عباس انصاری حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین تھے۔22 مارچ، 2019 کو، وزارت داخلہ (ایم ایچ اے) نے علیحدگی پسند لیڈر یاسین ملک کی جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف ) پر انسداد دہشت گردی قانون، غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ، 1967 (یو اے پی اے) کے تحت پابندی عائد کی تھی۔ پھر اسی سال 28 جنوری کو قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کی ایک ٹیم نے یو اے پی اے کی دفعات کے تحت سرینگر کے راج باغ علاقے میں حریت کانفرنس کے ہیڈ کوارٹر کو سیل کر دیا۔