سرینگر: جموں و کشمیر کی سابقہ وزیر اعلی محبوبہ مفتی کے بعد سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ نے بھی آرٹیکل 370 کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنا ردعمل سماجی رابطہ ویب سائٹ کے ذریعے دیا۔ دونوں ہند نواز سیاستدانوں نے یہ الزام لگاتے ہوئے کہ "ان کو اپنی رہایش گاہ سے باہر نہیں آنے دیا جا رہا ہے۔ جہاں محبوبہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ منزل نہیں محض ایک پڑاؤ ہے، وہیں عمر کا کہنا تھا کہ ابھی سب ختم نہیں ہوا۔
عمر عبداللہ نے ویڈیو پیغام میں کہا کہ سرینگر میں ان کے رہائش گاہ گُپکار کے مرکزی دروازے کو ایل جی منوج سنہا کی زیر قیادت جموں و کشمیر انتظامیہ نے تلا بند کر دیا ہے۔ انہوں نے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ میں آرٹیکل 370 پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنا ردعمل ظاہر کرنا چاہتا تھا، میڈیا کے ساتھ، لیکن انہیں اندر آنے کی اجازت نہیں دی گئی اور مجھے باہر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس لیے مجھے یہ راستہ اختیار کرنا پڑا ( ایکس پر لائیو)۔ آج سپریم کورٹ نے آرٹیکل 370 اور 35 اے اور ریاست کو دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے پر بالآخر اپنا فیصلہ سنایا۔ کیا ہم اس فیصلے کی توقع کر رہے تھے؟ نہیں، بلکل نہیں، ہم نے عدالت عظمیٰ کا دروازہ اس لیے کھٹکھٹایا تھا کہ ہم انصاف کا مطالبہ کر رہے تھے۔"
انہوں نے کہا کہ ظاہر ہے کہ ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے تھے، ہم نے دفعہ 370 کیس کے لیے قابل وکلا کا انتخاب کیا تھا اور انہوں نے کیس کو عدالت کے سامنے بڑے اچھے طریقے سے پیش کیا۔ بدقسمتی سے، ہم اپنے دلائل سے پانچ ججوں کو قائل نہیں کر سکے۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ میں اس فیصلہ پر صرف افسوس کا اظہار کرتا ہوں، بلکہ جموں و کشمیر، لداخ اور باقی ملک کے لوگوں سے معافی مانگتا ہوں جو چاہتے تھے کہ ہم اس مقدمہ کو جیتیں گے۔
عمر نے اپنے ویڈیو بیان میں مزید کیا کہ فیصلہ آنے کے بعد یہ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا، اگر میڈیا یہاں ہوتی، شاید وہ مجھ سے پوچھ لیتے کہ کیا میں عدالت کا احترام کرتا ہوں، ظاہر ہے کہ ہم سپریم کورٹ کا احترام کرتے ہیں، اگر ہم نے عدالت کا احترام نہ کیا ہوتا، تو ہم پہلے عدالت میں کیوں گئے ہوتے؟کیس ہارنے کے بعد اگر میں یہ کہوں کہ میں سپریم کورٹ کا احترام نہیں کرتا تو یہ غلط ہوگا۔
انہوں نے سوالہ انداز میں کیا کہ کیا اب ہمارے پاس اور کوئی آپشنز ہیں؟ کیوں نہیں؟ کیا ہم دوبارہ عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں؟ میں کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے ہمیں وکلاء سے بات کرنی ہوگی اور تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد ہم فیصلہ کر سکتے ہیں کہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے یا نہیں، اس میں وقت لگے گا۔انہوں نے کہا کہ ہماری لڑائی ہمیشہ قانون کے دائرے میں رہی گی۔
مزید پڑھیں: