مرکزی حکومت کی جانب سے 5 اگست کو دفعہ 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد عائد قدغنوں کے باوجود تاجروں نے ملک کی دیگر منڈیوں کو روانہ کیا۔
سرکاری کی طرف سے جاری بیان کے مطابق پانچ اگست کو 75 ٹرکوں کے ذریعے تازہ پھل کشمیر سے باہر دیگر منڈیوں کو بھیجا گیا تھا، جبکہ پابندی کے دوسرے روز 105 ٹرکوں کو روانہ کیا گیا تھا۔
حکام کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ پابندی کی وجہ سے وادی کے میوہ کاروباریوں کو کسی قسم کی نقصان نہ پہنچایا جائے گا، تاہم 13 اگست کو نا معلوم وجوہات کے باعث تازہ پھل کشمیر سے بر آمد نہیں ہو پایا۔
گزشتہ ماہ کی 22 تاریخ کو سب سے زیادہ 708 ٹرکوں کے ذریعے تازہ پھل کشمیر سے باہر بھیجا گیا۔
اگست کے مہینے میں 3360 ٹرکوں کے زریعے سیب کشمیر سے باہر بھیجے گئے جبکہ ستمبر میں ان کی تعداد 6506 رہی۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہر روز 500 کے قریب ٹرکوں کے ذریعے سیب ملک کی دیگر منڈیوں کو روانہ کیا جا رہا ہے جو گزشتہ برس کے مقابلے میں 50 فیصد کم ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس 1000 ٹرکوں کے ذریعے روزانہ سیب بھیجا جا رہا تھا۔
سوپور، سرینگر، شوپیاں اور اننت ناگ کی میوہ منڈیاں بند ہونے کے باعث ٹرکوں کو باہر سے ہی روانہ کیا جا رہا ہے۔
ایک طرف حکومت کی جانب سے ان میوہ منڈیوں کو دن میں کھولنے کو کہا گیا وہیں مشتبہ عسکریت پسندوں منڈیوں کو رات کے دوران منڈیوں کو چالو رکھنے کی ہدایات دی، جس کے باعث اس کاوبار سے وابستہ افراد تذبذب کا شکار ہوئے اور میوہ کو فروٹ منڈیوں تک نہیں بھیج پائے۔
سوپور میوہ منڈی میں مشتبہ عسکریت پسندوں کے حملے میں ایک خاتون سمیت 3 افراد زخمی ہونے کے بعد علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا اور تاجر میوہ منڈیوں کے باہر کام کرنے لگے۔
محکمہ باغبانی کے ڈائریکٹر اعجاز احمد بٹ نے کہا کہ کشمیر میں سالانہ 22 میٹرک ٹن سیب کی پیداوار ہوتی ہے اور اس صنعت کی قیمت 10،000 کروڑ روپے ہے جو وادی کے لاکھوں لوگوں کی معاش کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ 1.67 لاکھ ہیکٹر اراضی پر سیب کی کاشت ہوتی ہے اور تقریباً 7 لاکھ خاندان کشمیر میں سیب کی صنعت پر منحصر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ رواں برس موسمی حالات کی وجہ سے سیب کی فصل کی پیداوار 10 فیصد زیادہ رہی، تاہم ، نامساعد حالات کی وجہ سے تاجروں اور کاشتکاروں کو نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ جنوبی کشمیر میں کچھ کاشتکار اپنے سیبوں کو درختوں سے نہیں اتار رہے ہیں