دانش قاضی، سرینگر کے سکمز بمنہ ہسپتال میں کووڈ میں مبتلا اپنے والد کے لیے آئی سی یو بیڈ کے لیے گذشتہ ایک ہفتے سے ہسپتال انتظامیہ سے التجا کر رہے ہیں کہ انہیں ایک بیڈ دے دیا جائے لیکن بیڈ دستیاب نہ ہونے کے باعث ان کے والد کی طبیعت بگڑتی جارہی ہے۔
دانش کا کہنا ہے کہ ان کے والد قاضی آفتاب دو ہفتے قبل کووڈ-19 سے متاثر ہوئے تھے۔ ڈاکٹروں کی صلاح کے بعد انہیں بمنہ میں واقع سکمز ہسپتال میں داخل کرایا گیا جہاں انہیں انتہائی نگہداشت یونٹ یعنی آئی سی یو میں رکھنے کی ڈاکٹروں نے صلاح دی۔
تاہم، ہسپتال میں کوئی آئی سی یو بیڈ خالی نہیں ہے اور ان کے والد کی زندگی اب خطرے میں ہے جس کے باعث وہ حد درجہ پریشان ہیں۔
جموں و کشمیر میں کووڈ کی دوسری لہر کی وجہ سے مثبت کیسز کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور ہسپتالوں میں بیڈ بالخصوص آئی سی یو بیڈ کی شدید قلت ہوگئی ہے۔
گذشتہ ایک ماہ میں تقریباً 40 ہزار کیسز درج کیے گئے ہیں۔ ان میں 568 مریضوں کا اسی مہلک وبا کے باعث انتقال ہو چکا ہے۔ لیکن سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جموں و کشمیر کے تمام بڑے و چھوٹے ہسپتالوں میں محض 338 آئی سی یو بیڈز ہی دستیاب ہیں۔
آئی سی یو بیڈز کی قلت کی وجہ سے بیشتر مریضوں کی زندگی محض آکیسجین سلینڈر پر منحصر ہے۔ متعدد مریض آئی سی یو بیڈ نہ ملنے کی وجہ سے اپنی جان گنوا چکے ہیں اور یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ہر روز کیسز میں بھی اور اموات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق گذشتہ برس کی پہلی لہر کے مقابلے میں اس دوسری لہر میں آکیسجین اور آئی سی یو بیڈز کی ضرورت زیادہ بڑھ گئی ہے کیوں کہ متاثرین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
اپیڈیمولاجسٹ (Epidemiologist) ڈاکٹر رؤف حسین راتھر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ اس کووڈ لہر میں بہت کم وقت میں بہت زیادہ لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ سی آکسیجن اور آئی سی یو بیڈز کی ضرورت میں حددرجہ اضافہ ہے اور اس کی دستیابی بھی فوراً نہیں کی جاسکتی۔
طبی ماہرین دوسری لہر کے متعلق بہت پہلے ہی انتظامیہ کو متنبہ کر چکے تھے لیکن ایل جی انتظامیہ نے گذشتہ ایک برس میں ہسپتالوں میں آئی سی یو بیڈ میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔
ایل جی کے مشیر بصیر خان سے جب اس تعلق سے ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے سوال کیا تو ان کے پاس اس کا کوئی واضح اور ٹھوس جواب نہیں تھا۔ تاہم، انہوں دعوی کیا کہ انتظامیہ ہسپتالوں میں طبی سہولیات کا جائزہ بھی لے رہی ہے اور جن چیزوں کی ضرورت ہے اسے پورا کرنے کی بھی ہرممکن کوشش کر رہی ہے۔
لیکن قاضی آفتاب جیسے سینکڑوں مریض آج بھی ہسپتالوں میں آئی سی یو بیڈ کے لیے ترس رہے ہیں اور ہسپتالوں میں دھکے کھا رہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بیڈ تبھی خالی ہوتا ہے جب کسی مریض کی موت ہوجاتی ہے۔