ETV Bharat / state

پلوامہ حملے میں ملوث ملزم گرفتار - national investigation agency

این آئی اے نے پلوامہ کیس میں لشکر طیبہ کے کارکن شاکر بشیر کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

پلوامہ حملے میں ملوث ملزم گرفتار
پلوامہ حملے میں ملوث ملزم گرفتار
author img

By

Published : Feb 28, 2020, 8:41 PM IST

Updated : Mar 2, 2020, 9:42 PM IST

تحقیقاتی جانچ ایجنسی نے آج ایک گرونڑ ورکر کو گرفتار کر لیا ہے جس کے بارے میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ عسکریت پسندوں کو کپڑے و دیگر ساز و سامان فراہم کرنے میں ملوث ہے۔ وہیں جانچ ایجنسی نے کہا ہے کہ 'شاکر احمد، عادل ڈار کا خاص ساتھی تھا جس نے لیتہ پورہ پلوامہ میں خودکش حملہ کیا تھا۔'

شاکر احمد کی عمر تقریباً 22 برس ہے اور یہ ضلع پلوامہ کے ہیجبل کاکاپورہ کا رہنے والا ہے۔

این آئی اے نے دعوی کیا ہے کہ شاکر بشیر نے یہ قبول کیا ہے کہ اس نے پلوامہ حملہ ہونے تک عادل محمد ڈار اور پاکستانی عسکریت پسند عمر فاروق کو اپنے گھر میں پناہ دی اور ان کی مدد کی۔

این آئی اے کے مطابق ابتدائی پوچھ گچھ میں شاکر بشیر ماگرے نے انکشاف کیا کہ اس نے کئی موقعوں پر جیش محمد کے شدت پسندوں کو دھماکہ خیز مواد، نقد اور دیگر چیزیں فراہم کی تھیں۔ ماگرے نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ اس نے لوگوں کو پلوامہ حملے کے لیے بھی اشیاء فراہم کی تھی۔

این آئی اے کے مطابق شاکر بشیر نے یہ قبول کیا ہے کہ اس نے پلوامہ حملہ ہونے تک عادل محمد ڈار اور پاکستانی عسکریت پسند عمر فاروق کو اپنے گھر میں پناہ دی اور ان کی مدد کی۔ ماگرے کی دکان لیتہ پورہ پل کے پاس ہے۔ اس نے بتایا کہ عمر کے کہنے پر اس نے جنوری 2019 میں جموں سرینگر شاہراہ پر سی آر پی ایف کے قافلوں کی نقل و حرکت پر غور کرنا شروع کیا۔

ایجنسی کے مطابق شاکر نے قبول کیا کہ علاقے میں سی آر پی ایف کے قافلوں کی نقل و حرکت پر غور کیا اور عادل اور عمر کو اس کی جانکاری دی۔ ماگرے نے یہ بھی بتایا کہ اس نے ہی ماروتی اکو کار کو موڈیفائی کیا اور فروری 2019 میں اس میں دھماکہ خیز مواد بھی لگایا۔

این آئی اے نے حملے میں استعمال ہوئی کار کی فارینسک جانچ کی تھی۔ جانچ میں پتہ چلا تھا کہ یہ ماروتی اکو تھی۔ ماروتی کے باقیات موقع واردات سے اکٹھا کیے گئے تھے۔ شاکر نے ان باتوں کی تصدیق کی تھی۔

فورینسک جانچ میں یہ پتہ چلا کہ حملے میں جو دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا تھا، اس میں امونیم نائٹریٹ، نٹرو گلسرین اور آر ڈی ایکس استعمال کیا گیا تھا۔ جانچ میں یہ بھی پتہ چلا کہ خود کش حملہ آور عادل احمد ڈار ہی تھا۔ اس کے والد سے اس کا ڈی این اے مل رہا تھا۔

پلوامہ حملے میں مدثر احمد خان، پاکستانی شدت پسند اور آئی ای ڈی ماہر کامران بھی شامل تھا۔ یہ دونوں ہی مارچ 2019 میں مارے گئے۔ کار کا مالک سجاد احمد بٹ جو جیش محمد کا شدت پسند تھا، وہ بھی اس حملے میں شامل تھا۔

ماگرے کو جمعہ کے روز جموں میں این آئی اے کی عدالت میں پیش کیا گیا اور مزید پوچھ گچھ کے لیے 15 روز کے لیے این آئی اے کی تحویل میں بھیج دیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس پلوامہ حملے میں 40 سی آر پی ایف جوان ہلاک ہوئے تھے۔

ایجنسی نے مزید تحقیقات کے لیے شاکر بشیر کو 15 روز کی تحویل میں لیا ہے۔

تحقیقاتی جانچ ایجنسی نے آج ایک گرونڑ ورکر کو گرفتار کر لیا ہے جس کے بارے میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ عسکریت پسندوں کو کپڑے و دیگر ساز و سامان فراہم کرنے میں ملوث ہے۔ وہیں جانچ ایجنسی نے کہا ہے کہ 'شاکر احمد، عادل ڈار کا خاص ساتھی تھا جس نے لیتہ پورہ پلوامہ میں خودکش حملہ کیا تھا۔'

شاکر احمد کی عمر تقریباً 22 برس ہے اور یہ ضلع پلوامہ کے ہیجبل کاکاپورہ کا رہنے والا ہے۔

این آئی اے نے دعوی کیا ہے کہ شاکر بشیر نے یہ قبول کیا ہے کہ اس نے پلوامہ حملہ ہونے تک عادل محمد ڈار اور پاکستانی عسکریت پسند عمر فاروق کو اپنے گھر میں پناہ دی اور ان کی مدد کی۔

این آئی اے کے مطابق ابتدائی پوچھ گچھ میں شاکر بشیر ماگرے نے انکشاف کیا کہ اس نے کئی موقعوں پر جیش محمد کے شدت پسندوں کو دھماکہ خیز مواد، نقد اور دیگر چیزیں فراہم کی تھیں۔ ماگرے نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ اس نے لوگوں کو پلوامہ حملے کے لیے بھی اشیاء فراہم کی تھی۔

این آئی اے کے مطابق شاکر بشیر نے یہ قبول کیا ہے کہ اس نے پلوامہ حملہ ہونے تک عادل محمد ڈار اور پاکستانی عسکریت پسند عمر فاروق کو اپنے گھر میں پناہ دی اور ان کی مدد کی۔ ماگرے کی دکان لیتہ پورہ پل کے پاس ہے۔ اس نے بتایا کہ عمر کے کہنے پر اس نے جنوری 2019 میں جموں سرینگر شاہراہ پر سی آر پی ایف کے قافلوں کی نقل و حرکت پر غور کرنا شروع کیا۔

ایجنسی کے مطابق شاکر نے قبول کیا کہ علاقے میں سی آر پی ایف کے قافلوں کی نقل و حرکت پر غور کیا اور عادل اور عمر کو اس کی جانکاری دی۔ ماگرے نے یہ بھی بتایا کہ اس نے ہی ماروتی اکو کار کو موڈیفائی کیا اور فروری 2019 میں اس میں دھماکہ خیز مواد بھی لگایا۔

این آئی اے نے حملے میں استعمال ہوئی کار کی فارینسک جانچ کی تھی۔ جانچ میں پتہ چلا تھا کہ یہ ماروتی اکو تھی۔ ماروتی کے باقیات موقع واردات سے اکٹھا کیے گئے تھے۔ شاکر نے ان باتوں کی تصدیق کی تھی۔

فورینسک جانچ میں یہ پتہ چلا کہ حملے میں جو دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا تھا، اس میں امونیم نائٹریٹ، نٹرو گلسرین اور آر ڈی ایکس استعمال کیا گیا تھا۔ جانچ میں یہ بھی پتہ چلا کہ خود کش حملہ آور عادل احمد ڈار ہی تھا۔ اس کے والد سے اس کا ڈی این اے مل رہا تھا۔

پلوامہ حملے میں مدثر احمد خان، پاکستانی شدت پسند اور آئی ای ڈی ماہر کامران بھی شامل تھا۔ یہ دونوں ہی مارچ 2019 میں مارے گئے۔ کار کا مالک سجاد احمد بٹ جو جیش محمد کا شدت پسند تھا، وہ بھی اس حملے میں شامل تھا۔

ماگرے کو جمعہ کے روز جموں میں این آئی اے کی عدالت میں پیش کیا گیا اور مزید پوچھ گچھ کے لیے 15 روز کے لیے این آئی اے کی تحویل میں بھیج دیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس پلوامہ حملے میں 40 سی آر پی ایف جوان ہلاک ہوئے تھے۔

ایجنسی نے مزید تحقیقات کے لیے شاکر بشیر کو 15 روز کی تحویل میں لیا ہے۔

Last Updated : Mar 2, 2020, 9:42 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.