سیب کے باغات ہو یا اینٹ کے بھٹی۔ دھان کی کٹائی کا موسم ہو یا دھان کی پنیری لگانے کا موسم، ان اوقات میں صرف غیر مقامی مزدور ہی دکھائی دیتے تھے لیکن امن و امان کی صورتحال متاثر ہونے کی وجہ سے انہیں واپس لوٹنا پڑتا ہے۔
رواں سال کاشتکاری کا سیزن شروع ہونے سے پہلے ہی کورونا وائرس کے خوف سے انتظامیہ نے لاک ڈاؤن نافذ کیا ہے جس کی وجہ سے فصل کی کٹائی کے لیے غیر ریاستی مزدور نہیں آ سکے۔
پوری وادی کے لوگوں کے ساتھ ساتھ پہلگام حلقے میں بھی کاشتکاری کا کام انہی غیر ریاستی مزدوروں پر منحصر رہتا تھا۔
یہاں پر گاس کاٹنے کے لیے بھی غیر ریاستی مزدوروں کا استعمال کیا جاتا تھا لیکن رواں سال لاک ڈاؤن کی وجہ سے پہلگام حلقے کے لوگوں نے کاشتکاری کا کام از خود انجام دیا۔
لوگوں نے جدید مشینوں اور اوزاروں کا استعمال کیا جس میں خاص کر برش کٹر۔ ٹریلرشامل ہے۔
برش کٹر کو استعمال کرکے انہوں نے مویشیوں کے لیے سرسبز گاس ۔ گندم اورسرسوں کی کٹائی۔
لوگوں نے کاشتکاری کے کام کو انجام دینے کے لیے ایک دوسرے کا سہارا لیا اسکے علاوہ کاشتکاروں نے جدید ٹیکنالوجی اپنائی جس میں برش کٹر اور ٹریلر شامل ہیں ۔
ان مشینوں کی ڈیمانڈ مارکیٹ میں بہت زیادہ بڑھ گی ہے اگرچہ مارکٹ بند ہے لیکن اس کے باوجود بھی ان مشینوں کی ڈیمانڈ کافی زیادہ ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے بشیر احمد جو ایک برش کٹر چلاتے ہیں نے کہا کہ مزدوروں کے کام کرنے کی وجہ سے ہم اپنے کھیتوں میں خود کام کرنے سے دور ہوتے گئے، لیکن رواں سال ہمیں مجبور ہو کر ہمیں ان مشینوں کا سہارا لینا پڑا جس کی وجہ سے ہمارا کام آسان ہوا ہے اور مزدوری کا خرچہ بھی بچ گیا۔
وہیں جدید اوزاروں کی بدولت کافی وقت بھی بچ جاتا ہے۔