وادی میں سال گزشتہ کے ماہ اگست سے تعلیمی سرگرمیاں معطل رہنے کے بعد امسال ابھی تعلیمی ادارے کھل ہی رہے تھے کہ کورونا وائرس کے پیش نظر ان کو بند کیا گیا۔
کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ ہندی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر تعینات ڈاکٹر بھارت اندو کمار پاٹھک نے لاک ڈاؤن کے دوران وقت گزاری کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا ’’میں ایک کتاب لکھ رہا تھا جو بعض وجوہات کی بنا پر تشنہ تکمیل رہ گئی تھی، لاک ڈاؤن کے باعث گھر میں رہنے سے ایک تو میں نے وہ کتاب مکمل بھی کی اور اب اس کی ضروری تصحیح و اصلاح کررہا ہوں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اپنی کتاب مکمل کرنے کے علاوہ انہیں کئی ایسی کتابیں پڑھنے کا بھی موقع ملا جنہیں وہ پڑھنا چاہتے تھے لیکن دیگر مصروفیات کی بنا پر انہیں اس کام کا موقع نہیں مل رہا تھا۔
اترپردیش کے ضلع بلیہ کے رہنے والے ڈاکٹر پھاٹک نے مزید کہا کہ جب مارچ کے مہینے میں کورونا وائرس کے کیسز سامنے آنے لگے تو انہوں نے گھر جانے پر یہیں رکنے کو ترجیح دی۔
جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر امتیاز وانی - جو ایک کالج میں پڑھاتے ہیں - نے لاک ڈاؤن کے دوران تصنیف و تالیف کو وقت گزاری کا بہتر ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس دوران اہل خانہ کے ساتھ وقت گزارنے کا بھی موقع نصیب ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ’’لاک ڈاؤن کے دوران تصینف و تالیف میرا اوڑھنا بچھونا بن گیا ہے، میرا بیشتر وقت پڑھنے لکھنے میں گزر جاتا ہے، مختلف موضوعات بالخصوص اپنے مضامین کے متعلق کتب کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں۔‘‘
موصوف استاد نے کہا کہ کئی ایسے اساتذہ جنہوں نے مطالعہ کتب کو دیگر مصروفیات کے باعث ترک کیا ہوا تھا، نے دوبارہ مطالعہ کرنا شروع کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اساتذہ یا دیگر اسکالروں کی طرف سے لاک ڈاؤن کے دوران تصنیف وتالیف میں وقت گزاری سے وادی کے علمی وتحقیقی میدان میں مزید چار چاند لگ جائیں گے اور طلبا کے لئے ایک بیش بہا علمی خزانہ میسر ہوگا جس سے وہ مستفید ہوتے رہیں گے۔
ڈاکٹر امتیاز کا کہنا ہے کہ ’’لاک ڈاؤن سے ہمیں اپنے اہل خانہ کے ساتھ وقت گزارنے کا موقعہ نصیب ہوا جس کے باعث ہم گھریلو معاملات میں اپنا حصہ بھی ادا کر رہے ہیں اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مانوس بھی ہو رہے ہیں جس سے نہ صرف خاندان بلکہ معاشرے میں مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔‘‘
کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ فارسی کے ریسرچ اسکالر مدثر حسین کا کہنا ہے کہ ’’لاک ڈاؤن نے مجھے اپنا تحقیقی پیپر مکمل کرنے کے لئے گھر میں بیٹھنے کا موقع دیا۔‘‘
انہوں نے کہا ’’میں بعض مصروفیات کی وجہ سے اپنا تحقیقی پیپر مکمل نہیں کر پا رہا تھا اب لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھر سے باہر نہیں جا پا رہا ہوں جس سے مجھے اپنا پیپر مکمل کرنے کا موقع ہی نہیں بلکہ مزید موضوعات پر قلم اٹھانے کا وقت بھی مل رہا ہے۔‘‘
ماسٹرغلام احمد نامی ایک قلمکار نے کہا کہ کئی سال قبل گھریلو و دیگر مصروفیات کی وجہ سے انکی ایک کتاب تشنہ تکمیل رہ گئی تھی لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے انہوں نے اس پر مزید کام کرنا شروع کیا ہے اور وہ پُر امید ہیں کہ جلد وہ اپنا کام مکمل کر پائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ طلبا کو کتابیں پڑھنے کا اچھا موقع مل گیا ہے جس سے انہیں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہئے۔
موصوف استاد نے کہا کہ کئی ایسے اساتذہ جنہوں نے مطالعہ کتب کو دیگر مصروفیات کے باعث ترک کیا ہوا تھا، نے دوبارہ مطالعہ کرنا شروع کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اساتذہ یا دیگر اسکالروں کی طرف سے لاک ڈاؤن کے دوران تصنیف وتالیف میں وقت گزاری سے وادی کے علمی وتحقیقی میدان میں مزید چار چاند لگ جائیں گے اور طلبا کے لئے ایک بیش بہا علمی خزانہ میسر ہوگا جس سے وہ مستفید ہوتے رہیں گے۔