- نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ: دفعہ 370 کا معاملہ سپریم کورٹ میں ہے۔ ہم اپنا حق حاصل کرنے کی لڑائی لڑ رہے ہیں اور ہم یہ آئینی طریقہ سے کر رہے ہیں۔ اس میں کسی کو اعتراز نہیں ہونا چاہئے۔ ہم ایک مین اسٹریم جماعت ہے اور ہم الیکشن عمل میں شامل ہوں گے۔ اگر ملاقات کا سلسلہ بنا رہے، تو جو بھروسہ کم کیا گیا ہے وہ کسی حد تک بحال ہو سکتا۔ لیکن ہم سے کوئی یہ اُمید کریں کہ ایک میٹنگ میں سب ٹھیک ہوگا وہ غلط ہوگا۔ حد بندی کی ضرورت نہیں تھی۔ آسام کی حد بندی کو روکا گیا لیکن جموں و کشمیر میں یہ سلسلہ جاری رکھا گیا۔ اس میٹنگ سے نئی شروعات ہو گی۔ پاکستان کے ساتھ بات چیت پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔ اور خبروں کے مطابق پاکستان سے بیک چینل طریقہ سے بات چیت ہو رہی ہے۔ ہم بات چیت کا استقبال کرتے ہیں۔
- پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی کی سربرہ محبوبہ مفتی: محبوبہ مفتی نے ایک بار پھر آرٹیکل 370 کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ حکومت نے غیر قانونی اور غیر آئینی طور پر جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کیا ہے۔محبوبہ مفتی نے کہا کہ 'بھارتی حکومت کو پاکستان سے بات کرنی چاہیے۔ ان کا خیال ہے کہ جب پاکستان کے ساتھ بات چیت ہوتی ہے تو کشمیریوں کو سکون ملتا ہے۔
- کانگریس رہنما غلام نبی آزاد: ریاستی درجہ کی واپسی پر بات ہوئی۔ الیکشن کرانے پر بھی گفتگو ہوئی۔ کشمیری پنڈتوں کی واپسی، سیاسی قیدیوں کی رہائی، روزگار نوکری وغیری پر بھی بات چیت ہوئی۔ 80 فیصد پارٹیوں نے دفعہ 370 پر بات نہیں کی کیونکہ معاملہ کورٹ میں ہے۔
- اپنی پارٹی کے سربراہ الطاف بخاری: یہ مذاکرات آج اچھے ماحول میں ہوئے۔ وزیر اعظم نے تمام قائدین کے مسائل سنے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ انتخابی عمل اس وقت شروع ہوگا جب حد بندی کا عمل ختم ہو جائے گا۔
- پیپلز کانفرنس کے رہنما مظفر حسین بیگ: خصوصی حیثیت کی بحالی کا مسئلہ عدالت میں ہے اسلئے اس پر بات کرنا صحیح نہیں ہے۔ حد بندی کے بعد جموں و کشمیر میں الیکشن منعقد کئے جائے گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اجلاس میں جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ دینے کی مانگ پر بات ہوئی جس پر وزیر اعظم نے کہا کہ حد بندی کے بعد ہی اس پر فیصلہ کیا جائے گا۔
- بی جے پی رہنما کویندر گپتا: سبھی جماعتوں نے اپنی بات رکھی۔ حد بندی کے بعد الیکشن ہوں گے۔ محبوبہ نے کہا پہلے بھی ایسی میٹنگ ہوتی تو اچھا ہوتا۔ 370 واپس آئے گا اس کا سوچنا بھی نہیں چاہئے۔
- بی جے پی کے ریاستی صدر رویندر رینا: نریندر مودی نے سبھی رہنماؤں کو یقین دلایا کہ جموں و کشمیر کے بہتر مستقبل کے لئے جو ممکن ہو گا وہ کریں گے۔ سبھی کی بات سنی گئی۔ جموں و کشمیر کی بہتری کے لئے ہر قدم اٹھائیں گے جن سے خطے کی بہتری ہو گی۔
- کانگریس کے ریاستی صدر غلام احمد میر: وزیر اعظم کا رسپانس مثبت تھا۔ آگے کیا ہوگا یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ ہماری بات بہت آرام سے سنی گئی۔ جو ایک مثبت اقدام ہے۔
- مملکتی وزیر جتیندر سنگھ: میٹنگ اچھے ماحول میں ہوئی۔ سب نے بھارتی آئین کا احترام کیا۔ مودی نے سب کے خیالات سنے۔ مودی نے میٹنگ میں کہا کہ جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لئے ہم سب کو کام کرنا ہوگا۔
آل پارٹی میٹنگ کا احوال
اس سے قبل 19 جون کو 14 سیاسی رہنماؤں کو وزیراعظم کی جانب سے میٹنگ کیلئے مدعو کیا گیا تھا۔ ان رہنماؤں کا تعلق آٹھ سیاسی جماعتوں - این سی، پی ڈی پی، بی جے پی، کانگریس، جموں و کشمیر اپنی پارٹی، سی پی آئی (ایم)، پیپلز کانفرنس اور پینتھرس پارٹی کے ساتھ ہے۔ انہیں مرکزی سیکرٹری داخلہ اجے بھلا نے 19 جون کے روز ٹیلیفون پر شرکت کے لئے مدعو کیا تھا۔ بعد میں انہیں باضابطہ دعوت نامے بھی روانہ کئے گئے۔ سبھی رہنماؤں نے کسی شرط کے بغیر اجلاس میں شرکت کی حامی بھری ہے۔ ان سیاسی رہنماؤں کا تعلق کشمیر اور جموں خطوں کے ساتھ ہے۔
جموں و کشمیر بالخصوص کشمیر صوبے میں مضبوط پکڑ رکھنے والی سیاسی جماعتوں نے واضح کیا تھا کہ وزیراعظم کے ساتھ دفعہ 370 کی بحالی اور سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جائے گا۔
لداخ کے کسی رہنما کو اجلاس میں شرکت کیلئے مدعو نہیں کیا گیا جو اس بات کا اشارہ ہے کہ سابق ریاست کی تقسیم کے حتمی ہونے پر مرکزی حکومت کوئی بات کرنا نہیں چاہتی حالانکہ کشمیر کے سیاسی رہنما چاہتے ہیں کہ ریاست کو دوبارہ متحد کرنے کے معاملے پر بات کی جائے۔
مرکز کا اچانک اقدام بین الاقوامی برادری خاص طور پر ریاستہائے متحدہ امریکہ کی جانب سے ان بیانات کے پس منظر میں آئے ہیں، جن میں بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ جموں وکشمیر میں جمہوری اور انتخابی عمل کو بحال کرے۔ خطہ سن 2018 کے بعد سے مرکز کی حکمرانی میں ہے۔
جموں و کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کی 5 اگست 2019 کے بعد وزیر اعظم سے یہ پہلی ملاقات ہوگی جب مرکز نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی اور اسے دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کردیا۔