کل جماعتی حریت کانفرنس نے حریت چیئرمین جناب میر واعظ مولوی محمد عمر فاروق و سینیئر ایگزیکٹیو رکن جناب بلال غنی لون، مولوی مسرور عباس انصاری کے علاوہ کئی کشمیری صحافیوں، سیاسی کارکنوں اور تاجروں کو مبینہ ٹارگٹ سرویلنس پر رکھنے کی حکومتی کارروائی کو غیر اخلاقی اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ہے۔ بیان میں کہا گیا جیسا کہ دی وائر نے اپنی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے وہ قابل مذمت اور شرمناک ہے۔
واضح رہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق کشمیر سے تعلق رکھنے والے اہم علاحدگی پسند رہنماؤں، سیاستدانوں، انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور کاروباری شخصیات کو کسی نامعلوم ایجنسی نے جاسوسی کرنے کے لئے منتخب کیا تھا۔
حریت کانفرنس کے موجودہ سربراہ میر واعظ عمر فاروق 2017 اور 2019 کے درمیان نگرانی کا ایک ممکنہ ہدف تھے۔ جب دی وائر نے ان سے رابطہ کیا تو فاروق کے ایک سینیئر معاون نے کہا کہ وہ "پریشان ہیں" کہ ان کے "بنیادی حقوق کو داؤ پر لگادیا گیا ہے"۔ بیان میں کہا گیا کہ اس غیر اخلاقی اور غیر قانونی عمل میں ملوث افراد اور ایجنسیوں کے خلاف باقاعدہ مقدمہ چلایا جانا چاہئے۔
حریت ترجمان نے کہا کہ حکومتوں کی جانب سے کسی بھی فرد کے فون کی نگرانی کے لئے انہیں ہیک کرنا نہ صرف بنیادی انسانی حق بلکہ نجی رازداری کے حق کی بھی سنگین خلاف ورزی ہے۔ لیکن جموں و کشمیر میں جہاں خطے کی پوری آبادی کے بنیادی انسانی حقوق کو سلب کرلیا گیا ہے ایسے میں قیادت کے حقوق کو سلب کرنا کوئی اچنبھے اور تعجب کی بات نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: متعدد کشمیریوں کے فونز کی جاسوسی کی کوشش ہوئی
حریت کانفرنس نے واضح کیا کہ اس کے چیئرمین میر واعظ مولوی محمد عمر فاروق کو گزشتہ دو سالوں یعنی اگست 2019 سے ہی حکمرانوں نے غیر قانونی طور پر نظر بند رکھا ہے اور اس طرح موصوف کے جملہ بنیادی اور بشری حقوق پہلے سے ہی سلب کرلئے گئے ہیں جو حد درجہ افسوسناک ہے۔
عالمی میڈیا کی انجمن کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ 40 سے زیادہ بھارتی صحافیوں کے فونز کی جاسوسی کی گئی اور فارنسک ٹیسٹنگ سے اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ پیگاسس اسپائی ویئر کا استعمال کرتے ہوئے کسی نامعلوم ایجنسی نے درجنوں بھارتی صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی جاسوسی کی ہے۔
اسی ضمن میں پی ڈی پی سربراہ محبوبہ مفتی نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف استعمال کیا جانے والا اسپائی ویئر کو سیاسی مخالفین اور اختلاف رائے رکھنے والوں سے نمٹنے کے لئے بطور ہتھیار استعمال کیا جارہا ہے۔ جی او آئی بدعنوانی کا شکار ہے اور ڈھٹائی کے ساتھ بنیادی انسانی حقوق کو پامال کررہی ہے۔