سرینگر: کم و بیش 658 دنوں تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے نظر بند رہنے کے بعد کشمیر کے معروف صحافی فہد شاہ کو رہا کیا گیا اور ان پر غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق ایکٹ اور پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت عائد الزامات کو بھی ہائی کورٹ آف جموں و کشمیر اور لداخ نے کالعدم قرار دیا، جس کے بعد وہ جمعرات کو سرینگر کے گلاب باغ میں واقع اپنی رہائش گاہ میں پہنچ گئے۔ رہائی کے بعد فہد شاہ کے گھر پر جہاں خوشی کا ماحول نظر آیا وہیں وہ خود اپنے آپ کو ایک عجیب ماھوم میں پارہے ہیں، فہد کے دوستوں کا کہنا ہے کہ وہ بدلے بدلے سے لگ رہے ہیں۔
اگرچہ ان کی رہائی کے بعد ان کے دوست، رشتہ دار اور ساتھی صحافی ان کو گلے لگا کر ان کو مبارکباد دے رہے ہیں، لیکن فہد کے چہرے پر وہ مسکراہٹ ابھی نظر نہیں آرہی جو ان کے جیل جانے سے انکے چہرے کی رونق ہوتی تھی۔ فہد نے اپنی زندگی کے 21 مہینے جموں کشمیر کی مختلف جیلوں میں گزارے۔ اس مدت کے دوران انہیں سب سے زیادہ وقت کیلئے جموں کے کوٹ بلوال جیل میں رکھا گیا جہاں انہوں نے سخت ترین موسم گرما بھی گزارا۔
جسمانی طور پر کمزور اور مایوس نظر آرہے فہد شاہ نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ "مجھے گھر آکر اپنے دوستوں اور قریبی لوگوں سے مل کر بہت اچھا لگ رہا ہے۔ جیل میں ہر دن کاٹنا بہت مشکل تھا، جس وجہ سے مجھے لگ رہا ہے کہ مجھ میں کافی بدلاؤ آیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میری صحت ٹھیک نہیں ہے۔ جیل ایک الگ ہی حقیقت ہے وہ آپ کی شخصیت کو بدل دیتی ہے، آپ پر ذہنی دباؤ ڈال دیتی ہے۔ جیل میں اپنے گزارے وقت کو میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ "جیل میں میں قرآن شریف کی تلاوت کرتا تھا اور اس کے علاوہ کئی معروف مصنفین کی کتابیں پڑھتا تھا۔ میں نے (نیلسن)منڈیلا پڑھا اور متعدد دیگر شخصیات کے بارے میں مطالعہ کیا۔ مجھے ابھی نہیں پتہ کہ میں اب آگے کیا کروں گا۔"
فہد شاہ، جیل جانے سے قبل ایک نیوز میگزین "دی کشمیر والا" کے مدیر تھے جس پر حکام نے پابندی عائد کی ہے۔ اس میگزین کے بارے میں حکام کا دعویٰ ہے کہ اس میں علیحدگی پسندی کو بڑھاوا دینے والا مواد شائع کیا جاتا تھا۔ حکام نے اس میگزین، جو آن لائن بھی دستیاب تھا، کی ویب سائٹ بھی بلاک کی ہے جبکہ راج باغ میں واقع اسکے دفتر کو بھی بند کردیا گیا۔ فہد شاہ بین الاقوامی اخبار دی کرسچن سائنس مانیٹر کے بھی نامہ نگار تھے جبکہ انکی تحریریں کئی بین الاقوامی اشاعتی اداروں نے بھی شائع کی ہیں۔ فہد نے کشمیر والا میگزین کے بارے میں کوئی بات نہیں کی، تاہم اتنا ضرور کہا کہ "جیل کی دیواروں پر قیدی اکثر اپنے جذبات اور خیالات تحریر کرتے ہیں۔ ان میں سے چند ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے ہر گزرتے پل کو یاد کرتے رہتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو امید لگائے رکھتے ہیں کہ ایک دن وہ اس جیل سے آزاد ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے بھی ویسے ہی ایک امید لگائی تھی مجھے یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن مجھے رہا کیا جائے گا۔ امید کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔ اس وقت میں جسمانی طور کمزور ہوں۔ زیادہ چلنے سے تھک جاتا ہوں۔ امید ہے کہ سب دوبارہ ٹھیک ہو جائے گا۔ جو مجھ پر گزری ہے میں دعا کرتا ہوں وہ کسی اور پر نہ گزرے۔"
فہد کے بھائی عاقب شاہ نے اٹی وی بھارت کو بتایا کہ "جب میں نے 22 نومبر کی شام فہد کو کوٹ بلوال جیل سے نکلتے ہوئے دیکھا تو مجھے لگا ہی نہیں کہ یہ میرا بھائی ہے۔ فہد وہ انسان تھا ہی نہیں جو جیل گیا تھا۔ اس کے ذہن پر کافی دباؤ پڑا ہے اور اس وقت اپنے دوستوں سے بات کر کے خود کو اس میں سے نکالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ "
ان کا مزید کہنا تھا کہ "میرا بھائی ان میں سے ہے جو کبھی ہار نہیں مانتے اور مجھے امید ہے کہ وہ زندگی کو دوبارہ شروع کرکے بلندیوں کو سر کرے گا۔ مجھے خوشی ہے کہ اس کے اتنے سارے دوست ہیں جو اس وقت اس کا حوصلہ بلند کرنے کے لیے لگاتار ہمارے گھر آرہے ہیں۔ میں ان سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔"
وہ کہتے ہیں کہ صحافی کبھی نہیں بدلتا، جب فہد سے یہ پوچھا گیا کہ جیل میں کیا بدلنے کی ضرورت ہے تو ان کا کہنا تھا کہ "جیل میں قیدیوں کو صحیح ڈھنگ سے طبی سہولیات نہیں فراہم کی جاتی ہیں۔ ہم ایک بیرک میں 17 قیدی تھے اور اگر کوئی بیمار پڑتا تو پہلے انہیں پن ٹاپ اور پھر ڈولو 650 دی جاتی تھی۔ کھانے میں دال چاول دال روٹی اور صرف دال ہی دال دی جاتی تھی۔ مجھے کھانے سے کوئی شکایت نہیں جو کچھ دیکھا اس کے مقابلے میں وہ کچھ نہیں۔"
واضح رہے کہ فروری 2022 میں 32 سالہ فہد شاہ کو یو پی اے اور پی ایس اے کی متعدد دفعات کے پولیس نے گرفتار کیا تھا۔اور اب 34 سالہ فہد شاہ کا کہنا ہے کہ وہ خود کو کافی خوش قسمت سمجھتے ہے کہ ان کی رہائی صرف 21 مہینوں میں ہوئی ورنہ عدالت کی سماعت میں کافی وقت لگتا ہے۔
فہد شاہ کی رہائی کے بعد صحافیوں کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس یا سی پی جے نے ایک بیان میں انکی رہائی کا خیر مقدم کیا اور حکومت ہند پر زور دیا کہ وہ جموں و کشمیر سے وابستہ دیگر نظر بند صحافیوں کی رہائی کے اقدامات اٹھائے اور کشمیر مین صحافت اور اظہار رائے پر عائد کی گئی بندشوں کو ختم کرے۔ واضح رہے کہ جموں و کشمیر میں 5 اگست 2019 کے بعد اخبارات اور صحافیوں کے خلاف متعدد بندشیں عائد کی گئی ہیں۔ حکام نے سرینگر میں قائم کشمیر پریس کلب کو بھی بند کردیا جبکہ کئی اخبارات کے اشتہارات یا تو وقتی طور بند کئے گئے یا ان میں کٹوتی کی گئی۔